Dawn News Television

اپ ڈیٹ 01 اگست 2015 09:19am

آخر بغاوت کیوں نہیں ہو رہی؟

آج کے دور میں غریب اور مزدور طبقہ خاموش کیوں ہے؟ غریب احتجاج کر کے کیوں طوفان برپا نہیں کر رہے؟ آج ووٹر زیادہ مراعات کیوں نہیں مانگتا؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ مجموعی سطح پر آج عوام میں بغاوت نہیں پائی جاتی۔

1970 میں جب مجموعی عوامی تحریکیں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں تو یکایک معاشرہ بہت تیزی سے بدلا، جبکہ آج لوگ مجموعی طبقاتی جدوجہد کے بجائے ایک خاص قسم کے دباؤ کے تحت انفرادی جدوجہد کرنا پسند کرتے ہیں۔ طبقاتی سطح پر جدوجہد کے لیے معاشرے کے مختلف حصوں میں بہت کم یکجہتی پائی جاتی ہے۔ انفرادیت جہاں ایک سطح پر مثبت اور جمہوری عمل ہے وہیں دوسری سطح پر اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور بوجھ لے کر آتی ہے جو انفرادی سطح پر انسان کی مقامی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

میرے خیال میں انفرادیت ایک دو دھاری تلوار ہے جس میں فرد کچھ نئی آزادیاں اور انفرادی حقوق تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کے بدلے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نئی ذمہ داریوں اور خطرات کو اپنا لیتا ہے۔ جہاں انفرادیت انسان کی ذات کی تکمیل میں کردار ادا کرتی ہے وہیں انفرادی حقوق اور آزادیوں کے لیے چلنے والی تحریکیں اجتماعی مقاصد کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی انفرادی جدوجہد نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں ہیں۔ آج پاکستان میں غریبوں کی حمایت کے لیے مجموعی تحریک کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غریبوں کی حمایت کے لیے مجموعی تحریک پر یقین یہ تقاضا کرتا ہے کہ ریاست تمام شہریوں کو سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن اس عمل یا عقیدے کو (کہ ریاست تمام لوگوں کو حقوق دے گی) انفرادیت نے بدل کر رکھ دیا ہے۔

انفرادیت کے نظریے کے مطابق چونکہ ریاست نے فرد کو کچھ آزادیاں دی ہیں اس لیے اب ساری ذمہ داریاں فرد پر ہیں۔ یعنی ریاست اپنے چند فرائض ادا کر کے باقی تمام ذمہ داریاں فرد پر ڈال رہی ہے۔

مجموعی سماجی عمل نے اب ایک مختلف شکل اختیار کر لی ہے۔ مثال کے طور پر انفرادی جدوجہد کے ساتھ جڑی تحریکیں جن میں علاقائی، لسانی، شناختی، حقوق نسواں کی تحریکیں اور ہم جنس تحریکیں شامل ہیں، اپنے آپ کو طبقاتی جدوجہد کے معاشی تقاضوں کے ساتھ نہیں جوڑتیں۔ پاکستان میں اس کی مثال یوٹیوب، سائبر کرائم بل اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر امریکا میں پاس ہونے والے ہم جنسی شادیوں کے قانون پر بحث کی صورت میں موجود ہے۔

ان سب تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام میں موجود بڑی تفریق کو ختم کرنے کے بجائے خود کو انفرادی شناخت یا انفرادی حقوق تک محدود کر لیتی ہیں۔ یہ تحریکیں خود کو طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر اٹھنے والی تحریکوں کے ساتھ نہیں جوڑتیں، جس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ریاست لوگوں کی توجہ ان انفرادی تحریکوں پر مرکوز کر کے طبقاتی تفریق کے بنیادی مسئلے سے جان چھڑا لیتی ہے۔

یہ سب لکھنے کے بعد میں دوبارہ اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہا ہوں کہ آج بڑھتے ہوئے سماجی اور معاشی استحصال کے باوجود عوام کی طرف سے اتنی کم مزاحمت کیوں دیکھنے کو ملتی ہے۔ تو میرے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ جو نا انصافی کی سب سے زیادہ قیمت چکاتے ہیں، آج کے نظام میں بالکل بے معنی ہو چکے ہیں۔ وہ اس نئے سیاسی ڈھانچے میں سیاسی یتیم ہیں۔ یہ طبقہ شاید شہری سیاست میں کہیں نہ کہیں آواز بلند تو کرتا ہے مگر قومی سطح پر سیاسی دھارے میں شامل نہیں ہو سکتا۔

انتخابات کے دن کے علاوہ جب کہ سیاسی جماعت کو ان کے ووٹ گننے ہوتے ہیں، یہ طبقہ کسی سیاسی قوت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

Read Comments