Dawn News Television

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2015 06:09pm

اسلام کے غیر مسلم ’ماہرین‘

آپ کسی مسئلے کو تب تک حل نہیں کر سکتے جب تک آپ کو معلوم نہ ہو کہ کوئی مسئلہ موجود ہے۔ مگر اگر آپ کے پاس اس کے لیے لفظ نہیں ہو، تو آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ کوئی مسئلہ ہے؟

مثال کے طور پر الفاظ 'مین' اور 'ایکسپلیننگ' کا مجموعہ 'مینسپلیننگ' (Mansplaining) کچھ مردوں کی خواتین کو ہروقت لیکچر دیتے رہنے کی عادت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین سے ایسے ہی بات کرنی چاہیے۔ مینسپلیننگ کی سب سے بدترین مثال یہ ہے کہ خواتین کو اس بارے میں لیکچر دیا جائے جس بارے میں وہ بلاشبہ زیادہ جانتی ہیں۔ مثلاً عورت ہونے کے بارے میں۔

میں ایسے ہی ایک رویے کا شکار رہا ہوں جس نے مجھے بے انتہا عاجز کر دیا ہے۔ پھر جب میں نے اس کے لیے ایک لفظ ایجاد کیا تو مجھے مزید غصہ آنے لگا، کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ یہ رویہ لوگوں میں بہت گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔

میں اسے 'اسلام اسپلیننگ' (Islamsplaining) کہتا ہوں، یعنی غیر مسلموں کا مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں لیکچر دینا۔

نیوز چینلز کے 'اسپیشلز' اور سوشل میڈیا پر ہونے والی بات چیت سے لے کر نجی ملاقاتوں تک، اسلام اسپلیننگ ہر جگہ موجود ہے۔

25 اپریل کو ESPN کے کمنٹیٹر کرٹ شلنگ نے مسلمانوں کا موازنہ نازیوں سے کیا۔ اپنی تازہ ترین کتاب It is all about Islam: Exposing the truth about ISIS, Iran, Al-Qaeda and the Caliphate میں گلین بیک کہتے ہیں کہ تمام مسلمان یا تو معتدل ہوتے ہیں یا پھر نازی۔

وسکونسن کے گورنر اسکاٹ واکر نے ایسا ہی بے بنیاد دعویٰ کیا: 'مٹھی بھر مسلمان ہی اعتدال پسند ہیں'۔ آپ کو معلوم ہے ہمیں اسلام سمجھانے والے ان لوگوں میں ایک بات کیا مشترک ہے؟ انہیں اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا جبکہ یہ باتیں ایسے کرتے ہیں جیسے اسلام پر ماہر ہوں۔

اور میرا اندازہ ہے کہ اگر یہ لوگ کبھی مسلمانوں سے ملیں بھی، تو یہ ہمارا نقطہء نظر سننے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں ہماری جگہ یاد دلانے کے لیے ہوتا ہے۔

میرا تجربہ ہے کہ 'اسلام اسپلیننگ' اس طرح کام کرتی ہے: کوئی بھی شخص جو مجھے ملتا ہے وہ میری گندمی رنگت، داڑھی، اور مزاحیہ سا نام سن کر اندازہ لگاتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، اور پھر مجھے مغرب کی اچھائیوں یا اسلام کی برائیوں پر لیکچر دینا شروع کر دیتا ہے، جیسے کہ یہ ہماری کہکشاں کے دو مختلف کونوں میں موجود کوئی جگہیں ہیں۔

یہاں پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ صرف وہی شخص بولتا جاتا ہے۔

حال ہی میں میں ایسے ہی ایک مزید پریشان کن تجربے سے گزرا۔ یہ اس لیے بھی پریشان کن تھا کیونکہ اس شخص کا قانون نافذ کرنے میں کئی سالوں کا تجربہ تھا۔ جب وہ مجھے اسلام کے بارے میں سمجھا رہا تھا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس کے نظریات اس کے ساتھیوں میں کس قدر عام تھے، اور کس طرح غلط فہمی پر مبنی یہ تاثرات ہماری داخلہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

میں اور وہ شخص ایک ٹی وی پروگرام میں پینل ڈسکشن کے بعد ملے تھے۔ یہ ٹی وی پروگرام محمد یوسف عبدالعزیز نامی 24 سالہ شخص کے بارے میں تھا جس نے چٹانوگا میں 5 امریکی فوجیوں کو قتل کر دیا تھا۔ ہم نے اسے اس کام پر مجبور کرنے والے ممکنہ عوامل پر بات کی کیونکہ اس وقت تک یہ واضح نہیں تھا کہ آیا عبدالعزیز دہشتگرد تھا (یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے۔)

مگر وہ مسلمان تھا، لہٰذا اسے دہشتگرد قرار دینا ضروری تھا، اور میرے ساتھی پینلسٹ نے ایسا ہی کیا۔ جب ہم بلڈنگ سے اکٹھے باہر نکل رہے تھے، تو ہم نے بات چیت شروع کی، یا شاید اس نے شروع کی۔

اب میں سوچتا ہوں کہ کاش میں کوئی بہانہ کر کے خالی اسٹوڈیو میں ہی ٹھہر جاتا۔ میں یہ کہہ سکتا تھا کہ نماز کا وقت ہے اور مجھے خالی کمرہ چاہیے۔

ابھی ہم لفٹ تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ مجھے بتایا گیا کہ صرف دو طرح کے مسلمان ہوتے ہیں: "ترقی پسند" اور "بنیاد پرست"۔ (سوچیں اگر میں نے جواب میں کہا ہوتا: "بالکل اسی طرح جیسے سفید فام امریکی بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، "ترقی پسند" اور "علیحدگی پسند"۔

مجھے بتایا گیا کہ "بنیاد پرست" پرتشدد کارروائیوں کے لیے ذمہ دار ہیں جبکہ اس تشدد کا واحد حل مسلمان برادری خود ہے۔

میں نے اسے یہ جواب نہیں دیا کہ امریکا میں عام طور پر دستیاب ہلاکت خیز اسلحے پر پابندی لگانا بھی اس تشدد کا ایک حل ہے۔ نہ ہی میں نے اسے یہ جواب دیا کہ جہاد کے نام پر لوگوں کو بھرتی کرنے والے اور ان کے حامی مسجدوں سے کتنا دور بھاگتے ہیں، کیونکہ اسلام میں ان کی پرتشدد کارروائیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایسے لوگ مسلمانوں سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے، بلکہ یہ لوگ مسلمانوں کو ہی قتل کرنا چاہتے ہیں۔ (اسی دن داعش کے ایک بم حملے میں 115 مسلمان ہلاک ہوگئے تھے۔)

مگر موسمیاتی تبدیلی کی طرح ایسے لوگ بھی ایک بار شروع ہوجائیں تو انہیں روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ داعش کے سلیپر سیل ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ وہ ہمارے جیسے دکھتے ہیں، ہماری پاس ہی رہتے ہیں مگر ہمیں مارنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ آخر امریکی مسلمان ایک غیر ملکی تنظیم، جس سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں، کے بنائے ہوئے سلیپر سیلز کا حل کس طرح ہوسکتے ہیں۔

لیکن اسی پر بس نہیں۔ مجھے کہا گیا کہ چٹانوگا واقعے کا ذمہ دار محمد عبدالعزیز مکمل طور پر اپنے ہوش و حواس میں تھا، اور بلاشبہ ایک دہشتگرد تھا (یہ تصور بعد میں سامنے آنے والے شواہد سے متصادم تھا)۔ دوسری جانب اس نے کچھ ماہ پہلے امریکی چرچ میں فائرنگ کرنے والے لڑکے ڈائلن اسٹورم روف کے بارے میں کہا کہ وہ دہشتگرد یا سفید فام نسل پرست نہیں بلکہ صرف ایک ذہنی مریض تھا جو اپنی دوائیں ٹھیک سے نہیں لے رہا تھا۔

پھر میں نے اسے یہ سارے جواب کیوں نہیں دیے؟

جب مرد خواتین کو لیکچر دیتے ہیں، تو ضروری نہیں کہ وہ خود کو ان سے بالاتر سمجھتے ہوں۔ وہ ایسا صرف خود کو یہ یقین دلانے کے لیے بھی کرتے ہیں کہ وہ ہر گفتگو و بحث کا اہم حصہ رہیں، اور یہ کہ ان کا نقطہء نظر ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ اسلام اسپلیننگ اس سے چنداں مختلف نہیں۔ ایسا شخص اپنے آپ کو اتنا اہم سمجھتا ہے کہ اپنے نظریات کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا۔

تو جب وہ مجھے اسلام پر لیکچر دے چکا، تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں مسلم علاقوں میں جاتا ہوں تو وہ اگلی بار میرے ساتھ چل کر انہیں بھی "لیکچر" (اسلام پر) دینا چاہے گا۔

میں نے بمشکل اپنی ہنسی روکی، اس کا وزیٹنگ کارڈ لیا، اور اگلے ڈسٹ بن میں پھاڑ کر پھینک دیا۔


یہ مضمون کوارٹز میں شائع ہوا، اور بہ اجازت ڈان پر شائع کیا گیا ہے.

Read Comments