Dawn News Television

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2015 12:12pm

آپ جسٹس کاظم ملک کی جگہ ہوتے تو؟

الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کس کے حق میں آیا اور کس کے خلاف اس کو ایک لمحہ کے لیے ایک طرف رکھ کر خود کو مئی 2013 میں لے جائیے۔ 11 مئی کو این اے 122 سے ایاز صادق کامیاب اور عمران خان ناکام ہوتے ہیں۔ عمران خان الیکشن ٹریبونل میں ایاز صادق کی کامیابی کو چیلنج کر دیتے ہیں۔

تصور کریں کہ جس الیکشن ٹریبونل نے این اے 122 کے انتخاب پر اٹھنے والے اعتراضات کا فیصلہ کرنا ہے اس کے جج جسٹس (ر) کاظم علی ملک نہیں بلکہ آپ ہیں۔ آپ نادرا، الیکشن کمیشن اور درخواست گزاروں سے ریکارڈ طلب کرتے ہیں، ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور تحقیقات کرنے پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ 255 رائے دہندگان ایسے تھے جنہوں نے ایک سے زائد دفعہ ووٹ ڈالا۔ 570 ووٹرز ایسے تھے جن کا ووٹ این اے 122 میں رجسٹرڈ ہی نہیں تھا، آپ کے سامنے 1270 ایسے بیلٹ پیپرز آتے ہیں جو ووٹرز کو جاری تو کیے گئے لیکن نہ تو بیلٹ باکس میں سے نکلے اور نہ ہی امیدواروں کے ووٹوں میں شمار کیے گئے۔

آپ تھیلے کھولتے ہیں اور ان تھیلوں میں سے 58970 استعمال شدہ کاونٹر فوائلز نکلتی ہیں، لیکن جب آپ ان کاؤنٹر فوائلز کے مقابلے میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کرتے ہیں تو ان کی تعداد 60350 بنتی ہے، یعنی آپ کو تھیلوں میں سے 1380 بیلٹ پیپرز ایسے ملتے ہیں جن کی شناخت ہی نہیں ہو سکتی، استعمال شدہ کاونٹر فوائلز میں سے 315 ایسی ہیں جن پر سیریل نمبرز ہی درج نہیں۔ 23957 کاونٹر فوائلز ایسی ہیں جن پر پریزائیڈنگ یا اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران کے دستخط اور مہر تک موجود نہیں۔ 6123 کاونٹر فوائلز ایسی ہیں جن پر دیے گئے شناختی کارڈ نمبرز نادرا سے کبھی جاری ہی نہیں ہوئے۔

نادرا کی اسکیننگ رپورٹ کے مطابق 2862 کاونٹر فوائلز ایسی ہیں جن پر دیے گئے شناختی کارڈ نمبرز کے کچھ ہندسے کم ہیں۔ 3440 کاونٹر فوائلز پر دیے گئے شناختی کارڈ نمبرز پڑھے ہی نہیں جا سکتے۔ 370 کاونٹر فوائلز ایسی ہیں جن پر شناختی کارڈ نمبرز درج ہی نہیں۔ 1715 کاونٹر فوائلز ایسی ملیں جن پر انگوٹھوں کے نشانات ہی موجود نہیں۔

یہ سارا ریکارڈ شیشے کی طرح بطور ٹریبونل جج آپ کے سامنے آ چکا ہے اور آپ نے اس کی جانچ پڑتال کر کے این اے 122 کا فیصلہ کرنا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھول جائیے کہ آپ کا تعلق یا وابستگی کس جماعت سے ہے۔ صرف ٹریبونل کا جج بن کر سوچیے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی بے ضابطگیوں، نا اہلی، اختیارات کا غلط استعمال، اور ذمہ داری سے خیانت برتنے پر کیا آپ اس انتخاب کو جائز اور قانونی قرار دے سکیں گے؟ کیا آپ بغیر سیریل نمبرز والی کاونٹر فوائلز کے مقابلے میں جاری کیے گئے بیلٹ پیپرز کو گنتی میں شمار کر سکیں گے؟

اس سے قطع نظر کہ کم ہندسوں والے یا نہ پڑھے جانے والے شناختی کارڈ نمبرز صحیح تھے یا غلط، لیکن کیا آپ اس حقیقت سے آنکھ چرا سکیں گے کہ متعلقہ پولنگ سٹاف اپنی قانونی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا؟ ایسے بیلٹ پیپرز جن پر انگوٹھوں کے نشانات ہی نہیں اور ایسی کاونٹر فوائلز جن پر شناختی کارڈ نمبرز ہی درج نہیں، کیا آپ انہیں ووٹوں کی گنتی میں شمار کر سکیں گے، کیا آپ استعمال شدہ کاونٹر فوائلز کے مقابلے میں ڈالے گئے 1350 سے زائد بیلٹ پیپرز کو اصلی قرار دے سکیں گے؟ اتنے ناقابل تردید شواہد کے باوجود بھی کیا آپ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے نظریہء ضرورت کا شکار ہو جائیں گے؟

یہی کیفیت جسٹس (ر) کاظم ملک پر بھی طاری ہوئی کہ ایک طرف مشکوک انتخابی نتیجہ اور دوسری طرف ملک کے طاقتور ایوان کے اسپیکر اور حکومتی جماعت کی طاقتور شخصیت۔ یوں کاظم ملک صاحب کو فیصلہ تحریر کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ انہوں نے اپنے ضمیر کو اپنے سامنے بٹھایا اور اس سے 6 سوالات کیے: کیا میرا مقصدِ تخلیق صرف پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اس کے ایندھن کی فکر کرنا ہے؟ کیا میں اس جانور کی مانند ہوں جو کھونٹی سے بندھا صرف اپنے چارے کی فکر میں مگن رہتا ہے؟ کیا میں اس بے لگام حیوان کی مانند ہوں جو اپنے شکار کی تلاش میں دندناتا پھرتا ہے؟ کیا میں اپنے مقصدِ تخلیق سے ناواقف ہو چکا ہوں؟ کیا میرا کوئی مذہب، کوئی ضمیر نہیں اور مجھ میں کوئی خوف خدا نہیں؟ کیا میں اس زمین پر بغیر کسی احتساب کے چھوڑ دیا گیا ہوں کہ جو جی میں آئے کرتا پھروں اور کیا مجھے راہ راست سے بھٹک جانے، لالچ اور حرص کے جنگلوں میں دیوانہ وار پھرنے کی آزادی ہے؟

جسٹس (ر) کاظم ملک نے عدالتی فیصلوں کی تاریخ میں پہلی بار اپنے ضمیر سے پوچھے گئے ان سوالات کو اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کے ضمیر نے ان سوالات کا جواب نفی میں دیا اور یوں ان کے ضمیر نے نظریہء ضرورت کو جھٹک دیا۔ اس انتخاب کے کالعدم ہونے سے دھاندلی کے دعوے یا دھاندلی کے ثابت ہونے کا کوئی تعلق نہیں، اس انتخاب کو کالعدم قرار دینے کے لیے جسٹس (ر) کاظم ملک کو انتخابی بے ضابطگیاں، بد انتظامی اور الیکشن کمیشن سمیت پولنگ اسٹاف کی نااہلی ہی کافی تھی، لہٰذا انہوں نے وہی کیا۔

یقین کیجیے کہ دنیا کی ترقی کی دوڑ میں پاکستان کی کسمپرسی کی ایک وجہ ہماری اپنے ضمیر سے دوری بھی ہے، ہمارے منصفین نے، ہمارے سی ایس ایس کرنے والے بابوؤں نے، ہمارے سرمایہ داروں نے، ہمارے تاجروں نے، ہمارے صحافیوں نے، ہمارے علماء نے، ہمارے دانشوروں نے، ہمارے سیاستدانوں نے، ہمارے طاقتور اداروں نے اور من حیث القوم ہم سب نے اپنے ضمیر سے سوالات کرنا چھوڑ دیے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ جناح کراچی کی سڑکوں پر دم توڑ گئے اور ایمبولینس خراب کیوں ہو گئی، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم کو بھرے مجمع میں گولی لگی لیکن سازش آج تک بے نقاب کیوں نہ ہو سکی، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ جس گورنر ہاؤس میں جناح رہتے رہے ان کی وفات کے بعد اس گورنر ہاؤس میں مرغوں کی، اور کتوں اور بھیڑیوں کی لڑائی کیسے ہوتی رہی.

اگر ہم نے 1956 میں اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ بھارت نے آزادی کے دو سال بعد اور ہم نے نو سال بعد آئین کیوں بنایا، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ کس کی اور کن محلاتی سازشوں سے ایوب خان اقتدار پر قابض ہوئے، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ چوبیس سال تک ہم مشرقی پاکستان کے باسیوں کی محرومیوں میں دن رات اضافہ کیوں کرتے رہے، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ 70 کے انتخابات کے بعد اسمبلی کے اجلاس میں اراکین کی شرکت روکنے کے لیے ٹانگیں توڑنے کی دھمکی کس نے دی، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ بھٹو صاحب نے جس سیاسی شخصیت سے کہا کہ جس طرح تم زمینوں پر قبضہ کر رہے ہو مجھے خدشہ ہے کہ کسی دن تم مزارِ قائد کی زمین پر بھی قبضہ نہ کر لو، اسے انہوں نے کیا سزا دی.

اگر ہم نے کبھی اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، سنگاپور، کوریا، چین، تائیوان، اور انڈونیشیا کس طرح پاکستان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوتے گئے، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے کبھی یہ سوال کیا ہوتا کہ پاکستان کیوں دن بدن سرزمین بے آئین اور خطہ بے قانون بنتا گیا، اگر ہم نے کبھی اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ جرائم پیشہ عناصر، منشیات کے تاجر، دنیا بھر سے غنڈے اور رسہ گیر کس طرح پاکستان میں اپنے قدم جماتے رہے، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ کس طرح 88 سے 99 تک جمہوریت کے چیمپیئن ملک کو شترِ بے مہار کی طرح چلاتے رہے.

اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ کس طرح اداروں کو سیاست زدہ کیا گیا اور سرکاری افسران کو منافقت، چاپلوسی، نالائقی، اقربا پروری، بد دیانتی اور لوٹ کھسوٹ کی عادت ڈالی گئی، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ دنیا تو آج 2015 میں کھڑی ہے لیکن پاکستان کا گلا سڑا ریاستی نظام آج بھی 150 سال قبل کے دور میں کیوں کھڑا ہے، اگر ہم نے اپنے ضمیر سے سوال کیا ہوتا کہ کیا اس ملک کا غریب اپنا پیٹ کاٹ کر جو ٹیکس ادا کرتا ہے اسے دکھاوے کے منصوبوں پر خرچ کرنا چاہیے یا طویل المدتی اصلاحات لانے پر، تو شاید آج ہم بھی سماجی بہبود کی ریاست بن چکے ہوتے۔

جسٹس (ر) کاظم ملک نے اپنے ضمیر سے ایسے ہی سوالات پوچھے جو آپ کو لرزا دیتے ہیں، لیکن مسلم لیگ ن نے جسٹس (ر) کاظم ملک پر متعصب ہونے کے الزامات لگا دیے۔ اپنے ضمیر سے پوچھے گئے ان کے سوالات کو ذہنی تعصب کا نام دے دیا، جس معاشرے کے لوگ اپنے ضمیر سے مکالمہ کرنے کو ذہنی تعصب کا نام دینے لگیں، وہ معاشرہ دراصل خود ذہنی مریض بن جایا کرتا ہے۔ جس معاشرے کے لوگ ضمیر سے مکالمے کو تعصب سے تعبیر کرنے لگیں تو اس معاشرے کا ضمیر مردہ ہو جایا کرتا ہے۔ آپ اگر این اے 122 کے فیصلے کو سمجھ سکے ہیں تو پھر سوچیے کہ کیا کاظم ملک متعصب ہیں یا ہم مردہ ضمیر ہو چکے ہیں؟

Read Comments