Dawn News Television

شائع 03 ستمبر 2015 11:11am

طلبہ کی 'خودکشی' : مزید خطوط و ڈرائنگز برآمد

کراچی: سولجر بازار کے علاقے پٹیل پاڑہ میں واقع ایک سرکاری اسکول میں منگل کو جان کی بازی ہارنے والے نوعمر طلبہ کے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط اور ڈرائنگز کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے اور پولیس اس واقعے کی تفتیش خودکشی کے کیس کے حوالے سے کر رہی ہے.

خیال رہے کہ 16 سالہ نوروز نے رواں ہفتے منگل کو اسکول میں اپنی ہم جماعت 15 سالہ فاطمہ بشیر عرف صباء کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی ، خود کشی سے قبل دونوں نے خطوط بھی چھوڑے تھے کہ ان کے والدین ان کی شادی کے لیے راضی نہیں ہوں گے اس لیے وہ اپنی مرضی سے خود کشی کر رہے ہیں.

مزید پڑھیں:ساتھی طالبہ کے قتل کے بعد طالبعلم کی خود کشی

جمشید ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) اختر فاروق کے مطابق پولیس کو لڑکے کے اسکول بیگ میں سے ہاتھ سے لکھے ہوئے مزید خطوط اور کچھ ڈرائنگز ملی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے تھے.

ایس پی کے مطابق ان خطوط سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں کم سن طلبہ نے خود کشی اچانک نہیں کی بلکہ اس کے لیے انہوں نے کئی دن پہلے سے منصوبہ بندی کی، ایک خط میں لڑکے نے زہریلی دوا پی کر خودکشی کا ارادہ ظاہر کیا جبکہ ایک خط سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی محض ایک سال ہی پرانی ہے، جبکہ لڑکے کے بیگ سے ملنے والی ایک ڈرائنگ میں اُس نے اپنے اور فاطمہ کے نمازِ جنازہ کی منظر کشی کی ہے.

خیال رہے کہ دو روز قبل ہی نوروز نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھ دیا تھا کہ 'میں کل مر جاؤں گا' (tomorrow I will die)، جبکہ نوروز نے فیس بک کی پرو فائل پر بھی ایک لڑکے اور لڑکی کی اجتماعی خود کشی کی تصویر لگارکھی تھی جس سے اس کے ارادے کی جانب نشاندہی ہورہی ہے.

دوسری جانب 15 سالہ فاطمہ عرف صبا کی فیس بک آئی ڈی پر واضح طور پر تحریر تھا کہ "میں نوروز سے محبت کرتی ہوں" (I love NavRoz).

تاہم فیس بک انتظامیہ کی جانب سے خود کشی کرنے والے 16 سالہ نوروز اور 15 سالہ فاطمہ کے فیس بک کے اکاؤنٹ بند کیے جاچکے ہیں.

ایس پی اختر فاروق کے مطابق لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے البتہ دونوں کے خاندان ان کی دوستی کو درست نہیں سمجھتے تھے، نوروز کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا جبکہ لڑکی کے اہلخانہ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

اختر فاروق کے مطابق فائرنگ کے لیے استعمال ہونے والا پستول لڑکی اپنے ہمراہ لائی تھی، جو اُس نے لڑکے کے حوالے کردیا جبکہ طلبہ کے بیگ سے ملنے والے ایک خط میں بھی نوروز نے فاطمہ کو پستول لانے کا کہا تھا، پستول کا لائسنس بھی لڑکی کے والد کے نام پر ہے،جسے پولیس نے تحویل میں لے لیا.

یہ بھی پڑھیں:کمسن طلبہ کی خود کشی: پستول لڑکی لائی تھی

ابتدائی تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ لڑکا اور لڑکی اپنے دیگر ہم جماعتوں میں زیادہ گھلتے ملتے نہیں تھے، اس کے ساتھ ساتھ انھیں کھیلوں میں بھی دلچسپی نہیں تھی جبکہ لڑکا پڑھائی میں بھی اچھا نہیں تھا.

تاہم ایس پی کے مطابق طلبہ کے اہلخانہ کے ابتدائی بیان کے مطابق دونوں نے اس اقدام سے پہلے کسی غیر معمولی رویے کا اظہار نہیں کیا، لڑکی کےاہلخانہ کے مطابق صبا نے رات کو کھانا کھانے سے انکار کرکے برگر کھانے پر اصرار کیا.

دوسری جانب اس بدقسمت واقعے کے بعد پٹیل پاڑہ کا یہ اسکول ،جہاں طلبہ زیرِ تعلیم تھے، بدھ کو بند رہا.

Read Comments