کھیل

پشاور: پاکستان کرکٹ کا اہم ستون

نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل پشاور کو لگاتار دوسری مرتبہ ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن بنوانے والے کوچ کا خصوصی انٹرویو.

پاکستان کرکٹ باصلاحیت کھلاڑیوں سے مالامال ہے۔ جب یونس خان، عمر گل اور یاسر حمید جیسے کھلاڑی پشاور کی ٹیم کے کرتا دھرتا تھے تو ٹیم نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں ٹرافی اپنے نام نہیں کرپائی۔

پاکستانی کرکٹ کے تینوں بڑے ناموں کے ٹیم سے باہر ہونے کے بعد پشاور نے نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلایا۔ اس سے قبل صرف دو دفعہ 07-2006 اور 12-2011 میں سیمی فائنل تک پہنچے تھے۔

لیکن پچھلے دو سیزنوں میں پشاور نے شاندار انداز میں اپنی دھاک بٹھائی ہے۔ ستمبر 2014 میں پہلا ٹائٹل حاصل کر کے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ انھوں نے کراچی میں لاہور لائنز کو شکست دے کر اپنا لوہا منوایا تھا۔ ہندوستانی کالعدم چمپینز لیگ میں حصہ لینے والی ٹیم کی کارکردگی اور ان کی جانب سے گزشتہ ہفتے راولپنڈی میں اپنے اعزاز کا دفاع محض اتفاقی نہیں تھا۔

پشاور کے ڈومیسٹک سطح پر ایک قوت بن کر ابھرنے کے پیچھے ان کے ہیڈ کوچ عبدالرحمان ہیں، جن کی قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس نے اس حد تک تعریف کی کہ انھیں پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کراچی کو ہرانے کے چند گھنٹوں بعد زمبابوے کے خلاف سیریز کی تیاریوں کے لیے لگائے گئے مختصر تربیتی کیمپ میں شمولیت کے لیے لاہور بلایا گیا۔

45سالہ عبدالرحمان نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور لیول فور کے کوالیفائیڈ کوچ ہیں، انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ اور1989 میں سری لنکا اے کے خلاف ٹیم میں نمائندگی کی جس کے بعد 96-1995 میں آسٹریلیا اکیڈمی کے خلاف دو روزہ میچ بھی کھیلا۔

بہت سارے لوگ نہیں جانتے کہ عبدالرحمان 1996 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی ٹیم کے ممکنہ کھلاڑیوں میں شامل تھے۔عبدالرحمان نے کوچ کی حیثیت سے بلوچستان کو تین دفعہ پینٹینگولر کپ کے فائنل تک پہنچایا۔

لیکن جب وہ پشاور کی طرف منتقل ہوئے تو نتائج دینے شروع کردیے۔ ان کی زیر سرپرستی پشاور ریجن نے رواں سال جنوری میں خیبر پختونخوا فائٹرز کو پینٹنگو لر کپ کا تاج پہنانے سے قبل 12-2011 میں فرسٹ کلاس میں قائد اعظم ٹرافی سلور لیگ میں جیت، 2013-14 میں ون ڈے کپ میں دوسرے نمبر پر اور2014۔2015 میں پشاور پینتھرز نے ٹی ٹوئنٹی کپ میں فتوحات سمیٹیں۔

ڈان کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں عبدالرحمان نے پشاور کی حالیہ فتوحات کے راز بتائے۔

عبدالرحمان نے کہاکہ "میں سمجھتا ہوں تمام ٹیموں نے اس ٹائٹل کے حصول کے بعد پشاور کو ایک مضبوط حریف کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ ہم نے گزشتہ سال بھی ٹائٹل جیتا تھا لیکن اسے جیت سے قبل لوگ ہمیں حقیقی طور پر کوئی مقام دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ "

" لیکن اس کپ میں کامیابی نے پشاور کو پاکستان میں خوفناک ترین ٹیم بنایا ہے۔"

انھوں نے لاہور کے خلاف گزشتہ سال کی کامیابی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ پشاور نے وہ جیت آسانی سے حاصل کی تھی باوجود اس کے کہ لاہور لائنز کو اظہرعلی کی قیادت میں دوسرے درجے کی ٹیم سے مقابلہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔

"ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہنے کے لیے فیصل آباد، سیالکوٹ، اسلام آبادچ اور لاہور ایگل جیسی ٹیموں کو ہرا یا تھا۔ ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات یہ تھی کہ ہمیں اہمیت نہیں دی جارہی تھی۔"

عبدالرحمان نے کہاکہ کوچ کا کردار ثانوی ہوتا ہے کیونکہ دراصل کھلاڑی ہی ہوتاہے جسے میدان میں جوہر دکھانے ہوتے ہیں لیکن راوالپنڈی ہونے والے ایونٹ میں جیت کے بعد ان کی خوشی دیدنی تھی۔

" میرے خیال میں بغیر کسی تردد کے سہرا کھلاڑیوں کودینا چاہیے۔ بحیثیت کوچ کوئی انھیں متحرک کر سکتا ہے۔ لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ لوگوں کو احساس ہے کوچ بھی اہمیت رکھتا ہے۔"

" مجھے یاد ہے جب ہم نیشنل اسٹیڈیم میں فائنل جیتے تھے تو لوگوں کی بڑی تعداد جاننا چاہتی تھی کہ میں کون ہوں۔ اسی نے مجھے یقین فراہم کیا کہ کوچ کی حیثیت سے بہتر کر سکتا ہوں۔ ہماری گزشتہ ہفتے کی جیت نے دوسروں کو میرے بارے میں کچھ سوچنے کے لیے مجبور کیا ہے کہ وہ کچھ تو ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ کھلاڑیوں نے اصل کام کیا اور میں نے صرف انھیں ایک اکائی کی حیثیت سے کھیلنے کے لیے ہر ایک کو تھپکی دی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی کامیابی پر خوشی منانے کے لیے تیار کیا۔"

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ بڑے ستاروں سے بھری ٹیموں کے خلاف جیت جاتے ہیں تو کوئی اپنے خیالات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا بالخصوص مجھ جیسا آدمی بیان نہیں کر سکتا کیونکہ کوئی لغت میں الفاظ نہیں چن سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کی کراچی میں ہمارے پہلے ٹائٹل کی جیت بہت اہم تھی لیکن اس اعزاز کا دفاع کرتے ہوئے اسے برقرار رکھنا اس سے بڑھ کر ہے۔

عبدالرحمان نے اپنے ٹیم کی کامیابی کا آسان طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ انفرادی طور پر پشاور کی ٹیم میں دوسری ٹیموں کی طرح نام نہاد آئیکون کھلاڑی نہیں تھے، ہماری ٹیم میں صرف دو بین الاقوامی کھلاڑی(عمران خان سینئر اور محمد رضوان) تھے لیکن اللہ تعالیٰ پر یقین، خود اعتمادی، سکون اور خصوصی تیاریاں جیت کے بنیادی اجزا تھے۔

"ایک کوچ کو جیت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میرا فلسفہ ہے کہ پہلے کھلاڑی ہوتا ہے اور پھر جیت۔ تو مجھے اس وقت زیادہ خوشی ہو گی جب میرے کھلاڑیوں کو قومی ٹیم کے لیے لیے منتخب کیا جائے۔ عمران خان جونیئر کاانتخاب (زمبابوے کے خلاف ٹی ٹوئنٹی کے لیے) متوقع تھا اور انھیں دونوں ٹورنامنٹوں میں غیرمعمولی کارکردگی پر بہت سراہا گیا۔"

عمران خآن جونئیر کےشاندار انداز میں ابھرنے کے حوالے سے ان کاکہناتھا کہ محدود طرز کے کھیل کے لیے وہ بہت عمدہ بولرہیں۔

"شک کے کسی شائبے کے بغیر عمران جونیئر نے ٹائٹل کی دوبارہ جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ میرے خیال میں وہ بیٹسمینوں کو سمجھنے کے لیے خداداد قابلیت کے ساتھ غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل کھلاڑی ہے، ان کا تسلسل نہ صرف سلو گیندوں میں بلکہ یارکر میں بھی اچھا ہے اور ان کی تیز رفتار گیندیں بیٹسمینوں کو مشکل میں ڈالتی ہیں۔"

کوچ نے کہاکہ 27 سالہ کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ میں سوات کے گائوں پنجی گرام سے تعلق رکھنے والے پہلے کرکٹر بننے جارہے ہیں۔

عبدالرحمان نے اس تاثر کو ماننے سے انکار کردیاکہ پشاورصرف ہدف کے تعاقب میں بہترین ہیں۔ ان کی حالیہ ٹورنامنٹ میں ایبٹ آباد کے خلاف واحد ہار پہلے بیٹنگ کی صورت میں ہوئی تھی۔

انھوں نے مزید کہا میرا نہیں خیال کہ یہ ہماری کمزوری ہے کیونکہ باؤلنگ پہلے کریں یا بعد میں، آپ کو باؤلنگ وقت کے حساب سے کرنی ہوتی ہے۔ اگر آپ پہلے باؤلنگ کررہے ہیں تو آپ کو حریف کو چھوٹے ہدف تک محدود کرنا پڑتا ہے اور اگر آپ بعد میں باؤلنگ کر رہے ہوں تو آپ کو اپنے ہدف کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔

"تو دونوں صورتوں میں فیلڈ کے مطابق اچھی باؤلنگ کرنی پڑتی ہے، تاہم میرے خیال میں ہم ہدف کے تعاقب کی نسبت دفاع میں اچھے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے 13 میچوں میں ہدف کا تعاقب کیا جس میں اکثر میچوں میں ٹاس ہار گئے تھے اور ہمیں پہلے باؤلنگ کرنا پڑی تھی۔"

کوچ کی حیثیت سے عبدالرحمان کی کامیابیوں کے کھاتے میں پشاور کی طرح اور سنہرے واقعات ہیں۔ انھوں نے 2010-11 میں پاکستان اے کو ویسٹ انڈیز اے کے خلاف ون ڈے میچوں میں دو صفر سےکامیابی دلائی، گزشتہ سال آسٹریلیا کے خلاف چار روزہ میچ میں کامیابی، متحدہ عرب امارات کے خلاف ون ڈے سیریز میں 3-2 سے کامیابی اور گزشتہ سیزن میں نیوزی لینڈ کے خلاف تین روزہ میچ کو برابری پر ختم کرنے کے لیے ٹیم کی کوچنگ کی۔