پاکستان

ایل این جی معاہدہ: سربراہ سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی مستعفی

محمد امجد نے سپلائی چین واجبات کی ذمہ داری لینے کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے استعفیٰ دیا۔

اسلام آباد: بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کرنے کی ذمہ دار تمام کپمیناں کو چھتری فراہم کرنے والے ادارے سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) کے مینجنگ ڈائریکٹر نے ایل این جی کی متنازع فراہمی اور ادائیگی کے طریقہ کار پر استعفیٰ دے دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے گزشتہ 3 ہفتوں سے ایل این جی میں سرمایہ کاری، خریداری، ٹرانسپورٹ اور بیچنے کے اقدامات کے لئے دباؤں کے بعد ملک کے تیسرے بڑے انرجی سیکٹر کے اہم عہدیدار محمد امجد نے استعفیٰ دیا۔

واضح رہے کہ سی پی پی اے کے سربراہ نے اپنے مستعفی ہونے کی وجہ نجی مصروفیات بتائی ہیں تاہم ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان پر 3 جانب سے 3 مختلف معاہدوں پر دستخط کرنے کئے لئے بہت زیادہ دباؤں تھا، جو کہ ان کے مطابق ان کے اپنے ادارے کے حق میں بہتر نہیں ہے۔

ان کے ایک قریبی دوست نے ڈان کو بتایا ہے کہ ایک تجربہ کار شخص جو کے 1990 کے ادوار میں واپڈا میں ایک اہم عہدے پر تعینات رہ چکا ہو اور مسلم لیگ نواز کے گزشتہ دور حکومت میں مشکل دور گزار چکا ہو، ’ محمد امجد معاہدوں پر دستخط کرنے کے نتائج سے آگاہ ہے جسکے باعث انھوں نے ان اربوں ڈالرز کے معاہدوں سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔‘

خیال رہے کہ ایل این جی کو ٹرانسمیشن سسٹم میں داخل کئے جانے کے خلاف مزاہمت کرنے پر وزارت پیٹرولیم نے گزشتہ ہفتے سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر عارف حامد کے ٹرمینیشن آرڈر جاری کئے تھے جس کے بعد وہ مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔

تاہم ان کے بعد ان کی جانشین عظمہ عادل خان نے بھی وزارت پیٹرولیم کو ایک خط کے ذریعے ایل این جی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ہے۔

حکام کے مطابق حکومت پاکستان اور قطر کے درمیان ہونے والے ایل این جی معاہدے کو تاحال 3 اہم کمپنیوں، کیبنٹ کی اقتصادی کورآڈینشین کمیٹی (ای سی سی) اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھاڑی (اوگرا) کی جانب سے توثیق درکار ہے۔

ادھر وزارت پانی و بجلی کے ترجمان نے محمد امجد کی مستعفی ہونے پر کسی بھی قسم کا بیان دینے سے انکار کیا ہے۔