پاکستان

'افغانستان کے کسی حصہ پر قبضہ ناقابل قبول'

افغانستان کے کسی حصے پر کسی بھی گروپ کی جانب سے قبضہ پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری۔

نیو یارک: افغان طالبان کی جانب سے افغان شہر قندوز پر قبضے پر تبصرہ کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ افغانستان کے کسی حصے پر کسی بھی گروپ کی جانب سے قبضہ پاکستان کے لیے ناقابل قبول ہے۔

نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کی نمائندگی جمہوری عمل کے بعد منتخب حکومت کررہی ہے اور اس کے کسی بھی حصے پر کسی بھی گروپ کی جانب سے قبضہ ناقابل قبول ہے۔

سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مسائل الزام تراشی سے حل نہیں ہوں گے، پاکستان پڑوسی ملک کے مسائل کا پُرامن حل چاہتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان حملے روکنے کا وعدہ پورا کرے، افغانستان

اُنہوں نے افغان قیادت کو الزام تراشی سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔

اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان حکومت افغان کی قیادت سے رابطے میں ہے اور امید ہے کہ مذاکرات کا عمل جاری رہے گا۔

سیکیورٹی کونسل میں ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز پر سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ اس سے اصلاحات کا عمل مکمل نہیں ہوگا، پاکستان کی خواہش ہے کہ سلامتی کونسل میں جامع اصلاحات ہوں، صرف تعداد بڑھانا کافی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان پانچویں بڑے افغان شہر پر قابض

سیکریٹری خارجہ نے پاکستان سے دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم بھی دہرایا۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔

اعزاز چوہدری نے کشمیر میں ہندوستانی فوج کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

خیال رہے کہ سیکرٹری خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ روز افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اُن شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے اپنے وعدے کو پورا کرے، جو سرحد پار سے حملہ کرکے ان کے ملک کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ کچھ حملہ آور سرحد پار سے آتے ہیں اور "ہم پاکستان سے اُن اقدامات پر عملدرآمد کرنے کا کہہ رہے ہیں جن کا چند ماہ قبل ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان نے رواں برس 7 جولائی کو مری میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات کے پہلے دور کی میزبانی کی تھی، جس میں فریقین نے افغانستان اور خطے میں امن کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔

مذاکرات کا دوسرا دور 31 جولائی کو ہونا تھا تاہم افغان سربراہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبروں کی تصدیق کے بعد انھیں ملتوی کردیا گیا۔

بعد ازاں طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے یکم اگست کو جاری کیے گئے اپنے پہلے آڈیو پیغام میں مذاکراتی عمل کے ساتھ ساتھ جہاد اور شریعت کے نفاذ کے لیے کوششیں جاری رکھنے جیسے ملے جلے اشارے دیئے تھے۔