Dawn News Television

شائع 12 اکتوبر 2015 03:10pm

کیا یہ آخری سانحہء حج تھا؟

ایسوسی ایٹڈ پریس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس سال کے حج میں کچلے جانے والے حجاج کی تعداد 1453 ہوگئی ہے۔ اس تعداد کے ساتھ یہ سانحہ اب تک کے تمام حج سانحوں سے زیادہ ہلاکت خیز تھا۔

منیٰ کی اسٹریٹ 204 اور 223 کے سنگم پر ہونے والے اس سانحے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے، مگر بھلے ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سانحہ کس طرح رونما ہوا، اس بات کی امید کم ہی ہے کہ معلومات کو عوام تک پہنچایا جائے گا۔

اس سانحے کے بعد طرح طرح کی آراء سر اٹھانے لگیں۔ ترقی پذیر ممالک کے حجاج کے مطابق انتظامات نہ صرف کافی تھے، بلکہ اس سے زیادہ بہتر نہیں ہو سکتے تھے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک کے لوگ، جنہوں نے مجمع کو منظم کرنے کا عملی مظاہرہ اپنے ممالک میں دیکھ رکھا ہے، ان کے نزدیک انتظامات کافی نہیں تھے۔

کئی آراء تو بہت ہی مضحکہ خیز تھیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اس سانحے کی زیادہ میڈیا کوریج ایک سازش کے تحت تھی تاکہ لوگوں کو حج سے دور رکھا جائے۔ دوسری جانب کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سعودی عرب پر ہونے والی ہر تنقید صرف پروپیگنڈا ہے۔

1975 میں سعودی حکومت نے حج ریسرچ سینٹر اس لیے قائم کیا تھا تاکہ حجاج کرام کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بہتر طور پر منظم کرنے کے لیے سفارشات اکٹھی کی جا سکیں۔ بھلے ہی اس ادارے کی فنڈنگ حکومت خود کرتی ہے، مگر اس ادارے کی سفارشات پر زیادہ تر کیسز میں عمل نہیں کیا جاتا۔ اس کے نتیجے میں ہر کچھ سال بعد سانحے پر سانحہ رونما ہوتا ہے جبکہ بہتری کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔

مگر یہ سانحے صرف تب ہی منظرِ عام پر آتے ہیں جب ہلاکتوں کی تعداد تین ہندسوں تک پہنچتی ہے۔ حالیہ ترقیاتی کام، جس کا مقصد مزید حجاج کے لیے جگہ بنانا ہے، میں صحت اور حفاظتی اقدامات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جو ویسے بھی ترجیح نہیں تھے۔

لیکن کچھ معاملات ایسے ضرور ہیں جنہیں سعودی حکومت درست طور پر سنبھالتی ہے، جیسے کہ ہر سال مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی ہدایات از سرِ نو تیار کی جاتی ہیں، جبکہ مقامی اور عارضی عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حجاج کرام کی تعداد کو بھی کم یا زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس سال مسجدِ الحرام میں جاری تعمیراتی کام کے سبب حجاج کی اوسط سے کافی کم تعداد کو آنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اسی طرح گذشتہ سال MERS وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے بوڑھے اور کمزور لوگوں کو حج کے لیے ویزے جاری نہیں کیے گئے تھے۔

مگر پھر بھی بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں پر انتظامات کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی حکومت صحت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حاجیوں کی تربیت پر یقین نہیں رکھتی۔ سعودی انتظامیہ کے مطابق چونکہ حجاج کی اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے، اس لیے انہیں تربیت نہیں دی جا سکتی۔ مگر حج کے انتظامی اسٹاف میں بھی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تربیت کی کمی نظر آتی ہے۔ کیونکہ حاجی بہرحال اس عبادت کے مذہبی پہلوؤں کی تربیت تو حاصل کرتے ہی ہیں۔

مثال کے طور پر ہم ایک سانحے اور اس پر ہونے والے ردِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں، 1987 میں برطانیہ میں ایک فٹبال میچ کے دوران اسٹیڈیم کا خارجی دروازہ کھولنے کے بعد 96 لوگ کچل کر مارے گئے۔ دروازہ اس لیے کھولا گیا تھا تاکہ اسٹیڈیم کے باہر جمع ہونے والے مجمع کو سنبھالا جا سکے۔ اس سانحے کو اب Hillsborough disaster کے نام سے جانا جاتا ہے۔

فوراً ہی تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور تحقیقاتی رپورٹ کی اشاعت کے ایک سال کے اندر اندر برطانیہ بھر کے تمام اسٹیڈیمز نے شائقین کے کھڑے ہونے کی کھلی جگہوں کو بیٹھنے کی جگہوں میں بدل دیا۔

اس اقدام کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی کیونکہ لوگوں کو بٹھانے کا نتیجہ شائقین کی کم تعداد کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے آمدنی میں کمی ہوتی ہے، مگر عوام کی صحت اور حفاظت کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس کے بعد ہزاروں فٹبال میچز دوبارہ ہوئے مگر 1987 کا یہ سانحہ پھر کبھی رونما نہیں ہوا۔

کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فٹبال میچ کے مجمعے کا حج کے مجمعے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ایسا ہے، مگر پھر بھی یہ حج کے مجمع کا چھوٹا روپ ضرور کہلا سکتا ہے کیونکہ لوگ اتنے ہی کھچاکھچ بھرے ہوئے اور جذباتی ہوتے ہیں۔

دوسری جانب 1997 کا سانحہء منیٰ ہے جس میں آگ لگنے سے سینکڑوں حاجیوں کی جان گئی تھی، مگر فائرپروف خیمے چھ سال بعد 2003 میں لگائے گئے تھے۔

مجمع کا انتظام اور مجمع کی نفسیات دو مختلف شعبے ہیں۔ ان شعبوں میں تحقیق نے قابلِ قدر معلومات فراہم کی ہیں کہ کس طرح پیدل چلنے والوں کے لیے زیریں گزر گاہیں یا سرنگیں پلوں کے مقابلے میں زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ سادہ ہے: لوگوں کو (نفسیاتی طور پر) نیچے جانے میں اوپر کی جانب بڑھنے سے آسانی ہوتی ہے۔

اس طرح کی سینکڑوں تحقیقات موجود ہوں گی، کئی تو صرف اس پر ہوں گی کہ سخت دھوپ و گرمی میں مجمع کو کیسے منظم کیا جائے۔ ان سب تحقیقات سے مستقبل میں حج کے انتظامات مزید بہتر بنانے میں بے پناہ مدد مل سکتی ہے۔

عام طور پر سعودی حکام رضاکاروں، پولیس اور طبی عملے کی بڑی تعداد کو اپنے انتظامات اور کارکردگی کی دلیل بتاتے ہیں۔ مگر اچھے انتظام کے لیے محتاط منصوبہ بندی، تفصیلات پر توجہ اور دور اندیشی درکار ہوتی ہے جو حالیہ انتظامات میں دکھائی نہیں دیتی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ سانحوں کو قسمت میں لکھا یا خدا کی مرضی قرار دے کر بھلا نہ دیا جائے۔ تقدیر پر ایمان ضرور ہمیں سخت حالات میں راحت پہنچاتا ہے، مگر پھر بھی منصوبہ بندی کے ذریعے کئی چیزوں سے بچا جا سکتا ہے۔

امید ہے کہ یہ ہمارے سامنے ہونے والا آخری سانحہء حج ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments