Dawn News Television

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2015 08:46pm

کرکٹ کے یونانی دیوتا کا سیاسی مستقبل؟

گذشتہ دو سال میں عمران خان کے طرزِ سیاست پر اٹھنے والے سوالات، عمران کی سیاسی بلوغت پر ہونے والے اعتراضات، دھرنا سیاست کی بظاہر ناکامی اور کینٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں غیر متاثر کن فتح سے لے کر بیشتر ضمنی انتخابات میں شکست تک نے عمران کی سیاست کو کافی حد تک مرجھا تو دیا ہے، لیکن انہیں این اے 125، این اے 122 اور پھر این اے 154 سے متعلق ٹریبونل کے فیصلوں نے اخلاقی فتح کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

جوڈیشل کمیشن کی غیر تسلی بخش رپورٹ سے پہنچنے والے نقصان کو ٹریبونل کے فیصلوں نے بظاہر عمران کی کامیابی میں تبدیل کر دیا؛ تحریک انصاف کے ناراض لوگ واپس پلٹنے لگے، عمران کے مرجھائے ہوئے طرفداروں پر پھر سے امید کی بارش برسنے لگی، عمران کے تھکے ماندے کارکنوں نے سکھ کا سانس لیا، پارٹی میں زندگی کی نئی رمق دوڑنے لگی، اور یوں عمران کی سیاست پر پڑی غلطیوں کی دھول ٹریبونل کے فیصلوں نے اڑا دی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران قوم کو مخاطب کر کے کہتے کہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے یہ تھی وہ جنگ جو میں لڑ رہا تھا جس میں خدا نے مجھے اور میری جماعت کو سرخرو کیا ہے۔ میں صرف منافقانہ اور غلطیوں سے بھرپور انتخابی نظام کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہتا تھا اور ٹریبونل کے فیصلوں نے میرے مؤقف پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے، اگرچہ انتخابی نظام کی اصلاح پورے ملک کے عوام کا مسئلہ تھا اور میں نے اس ملک گیر مسئلے کے حل کے لیے خیبر پختونخواہ کے عوام کو دو سال تک نظر انداز کیا، مگر اب میں باقی ڈھائی سال خیبر پختونخواہ کی سڑکوں، مرغزاروں، جھرنوں، آبشاروں، فلک بوس پہاڑوں اور پہاڑوں میں گھری وادیوں کی کھوئی ہوئی رعنائیاں لوٹانے میں صرف کروں گا۔

پڑھیے: عمران خان کے نام کھلا خط

19 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد خدا نے مجھے ایک لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلے مالی اور انتظامی لحاظ سے مکمل خود مختار خوبصورت ترین صوبے میں حکومت عطا کی تھی، میں 19 سال سے جو منشور عوام کے سامنے رکھ رہا تھا، میں اصلاحات کے ذریعے جو نیا پاکستان بنانا چاہتا تھا، میں جس معاشی، سماجی، سیاسی اور عدالتی انصاف کی جدوجہد کر رہا تھا، میں جس سماجی بہبود کی ریاست بنانے کی بات کرتا تھا، اب وہ تمام خواب خیبر پختونخواہ میں حقیقت کا روپ دھاریں گے، لہٰذا میں ملک بھر میں اپنے ہمدردوں، کرم فرماوں، کارکنوں اور ساتھیوں سے معذرت کرتا ہوں کہ میں اب ان سے اس وقت ملوں گا جب خیبر پختونخواہ نیا بن جائے گا، میں اب بنی گالہ سے خیبر پختونخواہ منتقل ہو رہا ہوں، کاش کہ میرا دن اور رات 24 گھنٹوں کے بجائے 48 گھنٹوں کا ہو جائے تاکہ میں دس سال کا کام پانچ سال میں کر سکوں۔

عمران خان نے کئی دفعہ کہا کہ وہ اب ساری توجہ خیبر پختونخواہ پر مرکوز کریں گے، لیکن انہیں اس تمام عرصے میں دھاندلی کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خیبر پختونخواہ کے معاملات میں ایسے ڈوب جاتے کہ لوگ ان کے چہرے سے ہی نا آشنا ہو جاتے اور عمران کے پاس پریس کانفرنسوں، ٹی وی انٹرویوز اور سیاسی محاذ آرائی کے لیے وقت ہی نہ رہتا۔

جیسے جادوگر میز پر رکھی بے جان شے کو پہلے غلاف سے ڈھانپتا ہے، حاضرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، پھر اپنی مخروطی انگلیاں اور جادوئی چھڑی اس غلاف پر گھماتا ہے اور جادوگری کے گر آزمانے کے بعد غلاف اتارتا ہے تو میز پر رکھی بے جان شے جاندار میں تبدیل ہو چکی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح عمران گیارہ مئی 2013 کے بعد خیبر پختونخواہ پر ایک غلاف چڑھا دیتے، خان صاحب اور ان کی ٹیم غلاف کے نیچے رہ کر ہاتھوں میں تیشے اور کدالیں تھام لیتی، چترال کے پہاڑوں سے لے کر ایبٹ آباد، ایبٹ آباد سے لے کر طورخم، طورخم سے لے کر کرک، کرک سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر بلوچستان کے بارڈر تک کٹے پھٹے، پسماندہ، ترقی پذیر اور محروم خیبر پختونخواہ کو محیرالعقول خطہء زمین میں تبدیل کر دیتے۔

مزید پڑھیے: وڈیروں کا کندھا مت تلاش کریں

دنیا غلاف سے ڈھکے خیبر پختونخواہ پر نظریں گاڑے رکھتی، اور پھر عمران اچانک 2018 کے انتخابات سے چند مہینے پہلے عوام کے سامنے رونما ہوتے، ملک بھر میں عمران اور ان کے ساتھیوں کی انتھک محنت پر قصے، کتابیں اور افسانے لکھے جانے لگتے، عمران فتح اور کامرانی کے پر اعتماد لہجے میں پاکستان اور عالمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتے، لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے کہ آئیے آپ کو دکھاتے ہیں ترقی پذیر خطے کو ترقی یافتہ بنانے کا سفر کم سے کم وقت میں کیسے طے کیا جا سکتا ہے، دیکھیے تصورات اور خوابوں میں بسنے والی قابلِ رشک دنیا حقیقت میں کیسے تعمیر کی جاتی ہے۔

پھر عمران غلاف اتار کر اس تبدیل شدہ صوبے سے دنیا کو حیرت زدہ کر دیتے، دنیا خیبر پختونخواہ کو ایک ماڈل صوبہ قرار دے دیتی، دنیا بھر کے ماہرینِ سیاست اتنی بڑی تبدیلی کا مشاہدہ کرنے خیبر پختونخواہ امڈ آتے، دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں گورننس کے طالبعلموں کو خیبر پختونخواہ کی تبدیلی بطور ماڈل پڑھائی جانے لگتی، نئے خیبر پختونخواہ کو دنیائے سیاست اور طرزِ حکمرانی کے نصاب میں بطور ماڈل شامل کر لیا جاتا، درجنوں بین الاقوامی کمپنیاں صوبے میں تعلیم، صحت، سیاحت، تفریح اور تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے پرویز خٹک کے دفتر کے باہر ایستادہ کھڑی ہوتیں، اور جاذب توجہ ثقافت اور آنکھیں چندھیا دینے والے حسن کا مالک خیبر پختونخواہ دنیا کے بہترین سیاحتی مقام کا درجہ حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکا ہوتا۔

جھیل سیف الملوک کی دیو مالائی کہانیاں ہوں یا شوگران اور ناران کے سبز پوش پہاڑ۔ مدین اور کالام کے بل کھاتے پہاڑوں کے دامن میں بہتے یخ بستہ اور نیلگوں چشمے اور دریا ہوں یا قدیم تہذیبوں کے آثار سے لے کر ہندوکش کا نگینہ کہلانے والا چترال۔ دل لبھانے والی وادی کیلاش ہو یا پشاور، مردان اور تخت بھائی کی قدیم تہذہب، عمران قدرت کے اس انمول خطے کو جدت کی آمیزش کے ساتھ دنیا کے سامنے یوں سجا کر پیش کرتے کہ یورپ کا حسن بھی شرما اٹھتا۔

جانیے: عمران خان کی پانچ غلطیاں

اگرچہ خیبر پختونخواہ میں حکومت نے متعدد مثالی اور قابل رشک اقدامات اٹھائے ہیں، حکومت کی سمت درست لگ رہی ہے، لیکن ترقی اور تبدیلی کی رفتار مایوس کن ہے۔ عمران خان آپ نے خیبر پختونخواہ پر توجہ نہ دے کر مایوس کیا، آپ اپنی سیاست کا رخ مزاحمت سے خیبر پختونخواہ کی ترقی کی جانب موڑنے میں بری طرح ناکام رہے، آپ نے پھر دھاندلی کی تکرار اور این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں دو ماہ ضائع کر دیے۔

آپ مہاتیر محمد سے بہت متاثر ہیں اور آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جس طرح مہاتیر نے ربر اور ٹین برآمد کرنے والے ملائیشیا کو الیکٹرونکس آلات، سٹیل اور کاریں تیار کرنے والے ملک میں تبدیل کر دیا، میرے پاس بھی ایسا منصوبہ ہے کہ جس سے میں پاکستان کو ایف سولہ اور تیل درآمد کرنے والے ملک سے عالمی معاشی طاقت بنا دوں گا۔

خان صاحب! مہاتیر نے تو قوم کو بتدریج ترقی کا ایک نظریہ دیا تھا جس کے مطابق ملائیشیا نے 2020 تک دنیا کی جدید ریاست میں تبدیل ہونا تھا، آپ نے خیبر پختونخواہ کو پانچ سال میں کس بلندی تک لے جانے کا نظریہ دیا؟ مہاتیر نے تو 1993 میں کوالالمپور میں پیٹروناس ٹاور پر کام کا آغاز کیا تو 1999 میں دنیا کے اس وقت کے بلند ترین جڑواں ٹاور کا افتتاح کر دیا۔ آپ ان ڈھائی سالوں میں خیبر پختونخواہ میں بین الاقوامی سرمایہ کاری سے بڑے بڑے منصوبے کیوں نہ شروع کر سکے؟

مہاتیر نے تو کوالالمپور کے پام کے باغات کو دنیا کے پہلے ملٹی میڈیا سپر کوریڈور میں تبدیل کیا جہاں اس وقت 900 سے زائد ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ اس وقت مجموعی طور پر دنیا کے چالیس ملکوں سے سینکڑوں کاروباری ادارے، تنظیمیں اور کمپنیاں ملائیشیا میں کام کر رہی ہیں، مگر آپ تو خیبر پختونخواہ میں پانچ نامور غیر ملکی کمپنیاں بھی سرمایہ کاری کے لیے نہ لا سکے۔ کیا اس کی سب سے بڑی وجہ یہی نہیں کہ آپ کی توجہ خیبر پختونخواہ کے بجائے ایک سیاسی جنگ پر مرکوز ہو چکی ہے؟

پڑھیے: پی ٹی آئی کے حامی کا عمران خان کو مشورہ

خان صاحب آپ کو یہ احساس ہر پل زندہ رکھنا چاہیے تھا کہ جب آپ شوکت خانم کے لیے عطیات اکٹھا کرنے ملک کے شہر شہر گئے تو لوگوں نے آپ کو دل کھول کر عطیات دیے، کالم نویسوں نے آپ کے عزم اور حوصلے پر کالم لکھے، عورتوں نے اپنا زیور اتار کر آپ کو اپنے اعتماد کا مقروض کر دیا اور پھر 2013 کے الیکشن میں جب آپ لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے گئے تو لوگوں نے آپ کو ووٹ بینک کے اعتبار سے ملک کی دوسری بڑی جماعت بنا دیا۔ خان صاحب کیا آپ کو اندازہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں حیرت زدہ کر دینے والی تبدیلی نہ آنے سے ملک بھر میں تبدیلی کے کروڑوں منتظر کتنے مایوس ہوں گے؟

جب عمران خان کرکٹ کے بادشاہ تھے تو ایک دفعہ بھارت کے خلاف کھیلی جانے والی سیریز میں عمران خان کو ایف سولہ فائٹر جیٹ کہا گیا۔ کیا ہی خوب ہوتا کہ عمران 15 سال کا کام خیبر پختونخواہ میں کسی فائٹر جیٹ کی رفتار سے 5 سال میں کر دکھاتے۔ عمران خان کو انٹرنیشنل کرکٹ کا یونانی دیوتا بھی کہا جاتا تھا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان نیا خیبر پختونخواہ بنا دیتے اور دنیا عمران خان کو جدید ریاستی ترقی کا دیوتا کہنے پر مجبور ہو جاتی۔

کرکٹ کا یونانی دیوتا این اے 122 کی سیاسی نشست تو ہار گیا لیکن ابھی بھی اس کی شخصیت میں وہ کرشمہ اور اس کے حوصلوں میں وہ تپش موجود ہے کہ وہ اپنے اور قوم کے سیاسی مستقبل کو روشن کر سکتا ہے، لیکن ضرورت اگلے ڈھائی سال تک ساری توجہ صرف اور صرف خیبر پختونخواہ پر مرکوز کرنے کی ہے۔ اگر یہ توجہ مرکوز کی گئی، تو بعید نہیں کہ جو کام 5 سال میں ہونا چاہیے تھا، وہ خان صاحب کی توانائی سے بھرپور شخصیت ڈھائی سال میں کر دکھائے۔ لیکن اگر اب بھی اپنی گورننس بہتر بنانے کے بجائے سیاسی جنگ لڑی جاتی رہی، تو ایسی کئی شکستیں ان کا مقدر بن سکتی ہیں۔

Read Comments