Dawn News Television

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2020 08:07am

لیاقت علی خان پر الزامات کی حقیقت

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قتل کردیا گیا۔ لیاقت علی خان قائدِ اعظم کے دیرینہ رفیق کار تھے۔ انہی کے دور میں مذہبی جماعتوں نے مملکتِ خداداد پاکستان میں اپنے قدم جمانے شروع کیے۔

ان مذہبی جماعتوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے انہوں نے قراردادِ مقاصد قومی اسمبلی میں متعارف کروائی تاکہ ان کے اثر و نفوذ کو محدود کیا جاسکے۔ لیاقت علی خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ قرارداد مقاصد کی منظوری سے مذہبی جماعتوں کا اثر تو محدود نہ ہوا الٹا پاکستان میں ان کو اپنے نظریات نافذ کرنے کا ایک آئینی جواز مل گیا۔ اسی قراردادِ مقاصد کو بعدِ ازاں جنرل ضیاء نے اپنے خود ساختہ اسلامی نظریے کو لاگو کرنے کے لیے آئین کا حصہ بنا دیا۔

کمپنی باغ کے نام کو لیاقت علی خان کے قتل کے بعد لیاقت باغ کا نام دے دیا گیا۔ اسی لیاقت باغ میں ٹھیک 56 سال بعد ایک اور وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا۔ ایم ایس وینکٹے رامانی کی کتاب ”پاکستان میں امریکا کا کردار“ جس کا ترجمہ قاضی جاوید نے اردو میں کیا ہے، کے صفحہ نمبر 233-232 پر لکھا ہے کہ، "قاتل کی ایک گولی نے سماں ہی بدل دیا تھا۔ پاکستانی حکام نے قاتل سید اکبر کو ایک افغان شہری قرار دیا۔ افغان حکومت کے ترجمان نے فوراً پُر زور دعویٰ کیا کہ اکبر کو اس کی قوم دُشمن سرگرمیوں کی بناء پر افغان شہریت سے محروم کیا جاچکا تھا اور انگریز حکام نے اسے صوبہء سرحد میں پناہ دے رکھی تھی۔

"جلد ہی یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ انگریزوں نے اس کا جو وظیفہ مقرر کیا تھا وہ حکومتِ پاکستان بھی ادا کرتی رہی تھی۔ روزنامہ ”نیویارک ٹائمز“ میں ایک ایسوسی ایٹڈ رپورٹ ”حکومت کا وظیفہ خوار پاکستانی قاتل“ کے عنوان سے شائع ہوئی جس کے مطابق پاکستانی حکام نے آج یہ انکشاف کیا کہ سید اکبر نامی وہ افغان شہری جس نے گذشتہ ہفتے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کا قتل کیا وہ حکومت پاکستان کا 450 روپے (155 ڈالر) کا ماہانہ الاؤنس حاصل کرتا تھا۔"

ایک بات تو طے ہے کہ لیاقت علی خان کا قاتل سید اکبر اسٹیج کے بالکل سامنے اس قطار میں بیٹھا تھا جہاں سی آئی ڈی والوں کے لیے جگہ مخصوص تھی۔ اپنی نشست سے وہ لیاقت علی خان کو باآسانی نشانہ بنا سکتا تھا اور اس نے ایسا ہی کیا اور اس میں کامیاب بھی ہوا۔ وہ اس نشست تک کیسے پہنچا یہ ایک ایسی کہانی ہے جس پر 56 سال بعد قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔

قتل کے فوراً بعد پولیس نے اُسے گرفتار کرنے کے بجائے جان سے مارنے میں عافیت جانی۔ ”نیویارک ٹائمز“ کی رپورٹ کے مطابق ”جب اس نے دو گولیاں چلائیں تو اس کے فوراً بعد پاس بیٹھے افراد اُس پر جھپٹ پڑے، اُنہوں نے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے، اس پر گولیاں بھی چلائی گئیں، اور ان میں کم از کم ایک گولی ایک پولیس افسر نے چلائی تھی جس نے بعدِ ازاں یہ شہادت دی کہ گولی چلانے کا حکم ایک اعلیٰ افسر نے دیا تھا۔“

ایک لمحے کے لیے ہم یہ تسلیم کر بھی لیں کہ ایسا ہی ہوا تھا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جلسہ گاہ کی اگلی نشستیں تو سی آئی ڈی والوں کے لیے مخصوص ہوتی تھیں۔ اگر سید اکبر وہاں اکیلا پہنچ بھی گیا تو کیا پولیس کے تربیت یافتہ اہلکار یہ نہیں جانتے تھے کہ قاتل کو جان سے مارنے کے بجائے زندہ گرفتار کیا جانا چاہیے؟

جب اتنے سارے لوگ سید اکبر پر جھپٹے ہوں گے جنہوں نے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہوں، تو اس کے بعد وہ یقیناً اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ اپنے پستول کا مزید استعمال کرے۔ کیا وجہ تھی کہ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس کے باوجود اُسے گولی مارنے کا حکم دیا اور ان کے اس حکم پر فوری عمل درآمد بھی ہو گیا؟

یہ تو ایسے ہی ہے کہ 2007 میں جب بینظیر بھٹو لیاقت باغ میں جلسے کے بعد قتل ہوئیں تو اس کے فوراً بعد راولپنڈی فائر بریگیڈ کے عملے نے جائے وقوعہ کو پانی کے ذریعے دھو کر چمکا ڈالا۔ ان کا یہ عمل آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے مطابق جائے وقوعہ سے سینکڑوں شواہد مل سکتے تھے مگر دھوئے جانے کے بعد صرف چند ایک شواہد ہی مل پائے۔

خیر یہ الگ کہانی ہے۔ لیاقت علی خان کے قاتل کو وظیفہ ڈالرز کی شکل میں ملتا تھا اور ڈالر امریکا کی کرنسی ہے۔ لیاقت علی خان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان کو امریکا کی جھولی میں اس وقت ڈال دیا جب انہوں نے روس کے بجائے امریکا کے دورے کی دعوت قبول کی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم سے قبل اور اس کے فوراً بعد قائدِ اعظم محمد علی جناح یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پاکستان روسی نہیں بلکہ امریکی بلاک میں شامل ہوگا۔

امریکی محکمہء خارجہ کے ایک ریٹائرڈ افسر ڈینس ککس اپنی کتاب The United States and Pakistan 1997 - 2000 کے صفحہ نمبر 13-12 پر لکھتے ہیں کہ امریکی سفارت کار ریمنڈ ہیئر نے جب مئی 1947 میں نئی مملکت کی خارجہ پالیسی کے حوالے جناح سے سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا رجحان مشرقِ وسطیٰ کی مسلمان ریاستوں کی جانب ہوگا کیوں کہ وہ کمزور ہیں۔ مسلم ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف شانہ بشانہ ہونا ہوگا اور اس کے لیے انہیں امریکی معاونت درکار ہوگی۔ جناح کے بقول انہوں نے عوامی سطح پر اس بات کا اظہار نہیں کیا لیکن مسلمانوں کی اکثریت یہ سوچتی ہے کہ امریکیوں کا رویہ دوستانہ نہیں ہے۔ اُن کا تاثر یہ ہے کہ امریکی پریس اور بہت سارے امریکی پاکستان کے خلاف ہیں۔

یہ تو تھے جناح صاحب کے روس مخالف خیالات جو تقسیم سے قبل تھے لیکن اُن کے یہ خیالات تقسیم کے بعد اور زیادہ راسخ ہوگئے تھے۔ اس کا ذکر آگے کریں گے۔ اس سے پہلے اس الزام کا ذکر ہوجائے کہ لیاقت علی خان نے روسی دورے کو پس پشت ڈال کر امریکا جانے کو کیوں ترجیح دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ روس نے لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت ہی نہیں دی تھی بلکہ یہ دعوت حاصل ہو گئی تھی۔

1949 میں امریکی صدر ٹرومین نے ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو امریکا کے دورے پر مدعو کیا۔ پاکستانی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان، جو اپنی مغرب نواز پالیسوں کے حوالے سے خاصے معروف تھے، کو اپنی سُبکی کا احساس ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ مغرب دوست وہ تھے لیکن نہرو جنہیں ایک سوشلسٹ اور کمیونسٹ سمجھا جاتا تھا، امریکا کے دورے کے لیے مدعو کیا گیا۔

اس دعوت نے ان کی انا کو شدید ٹھیس پہنچائی۔ اس تمام صورتحال کا حل ایک سینئر مسلم لیگی رہنما راجہ غضنفر نے جو اس وقت تہران میں پاکستان کے سفیر تھے نکالا۔ ان کے ایران میں روسی سفارت کار سے بہت اچھے تعلقات تھے انہوں نے ایک عشائیے کا بندوبست کیا جس میں روسی سفارت کار علی علوی اور لیاقت علی خان کی ملاقات ہوئی۔ لیاقت علی خان نے اس موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ روس کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ 2 جون 1949 کو اُن کو روس کے دورے کی دعوت موصول ہوگئی اور اس کے ٹھیک 5 دن بعد لیاقت علی خان نے روس کی دعوت قبول کر لی۔

یہ بات پاکستان کی امریکی زدہ نوکر شاہی پر گراں گزری، اور اس کے ساتھ ساتھ برطانویوں اور امریکیوں پر بھی۔ برطانیہ نے اس فیصلے کو تحمل سے برداشت کیا لیکن امریکیوں کے لیے یہ ناقابل قبول تھا۔ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر سر لارینس گرافٹی اسمتھ نے سر ظفر اللہ خان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ امریکی اور برطانوی شہریوں کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرے گا۔ آخر کار یہ دورہ منسوخ ہو گیا۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ روس اور امریکا دونوں کی جانب سے لیاقت علی خان کو بیک وقت دورے کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن ہم عرض کر چکے ہیں ایسا نہیں تھا۔ روس کے دورے کی منسوخی اور امریکی دورے کی قبولیت کا الزام بھی لیاقت علی خان کے سر ہے۔ ایسا بھی کچھ نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ روس کے دورے کی دعوت لیاقت علی خان کی جانب سے حاصل کی گئی تھی۔

ڈینس ککس اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 33 پر لکھتے ہیں کہ ”پاکستان نے ابتدائی طور پر یہ تجویز کیا تھا کہ لیاقت علی خان 20 اگست 1949 کو ماسکو پہنچیں گے جبکہ روسیوں کی رائے تھی کہ وہ 15 اگست کو ماسکو پہنچیں۔ پاکستان کا مؤقف یہ تھا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ 14 اگست کو وزیرِ اعظم یوم آزادی کی تقریبات میں مصروف ہوں گے۔

روسی حکام نے یہ تجویز کیا کہ دورہ دو ماہ بعد نومبر کو ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا اصرار تھا کہ ایلچیوں کی تعیناتی بھی دورے سے قبل ضروری ہے لیکن وہ پاکستان میں سفیر کی تعیناتی کے لیے 28 اکتوبر تک ناکام رہے۔ اکتوبر 1949 میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اکرام اللہ نے برطانوی ہائی کمشنر گرافٹی اسمتھ کو یقین دلایا کہ روسی حکام وزیر اعظم پاکستان کے دورے کے حوالے سے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، اسی سبب وزیراعظم کا پاسپورٹ گذشتہ 3 ہفتوں سے نئی دہلی میں روسی سفارت خانے میں پڑا ہوا ہے۔

ان حقائق سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ لیاقت علی خان روس کا دورہ کرنا چاہتے تھے، لیکن روسی حکام نے گو کہ انہیں دعوت نامہ بھیج دیا، مگر شرط 20 اگست کے بجائے 15 اگست رکھ دی جو ممکن نہ تھی۔ تقسیم ہند کے بعد روس کی ہمدردیاں تو ویسے ہندوستان کے ساتھ تھیں۔ روسی سیاستدانوں کو بخوبی اس بات کا اندازہ تھا کہ انڈیا ہی ان کا قدرتی اتحادی ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندوستانی سفارت کاروں نے اس دورے کو منسوخ یا ناکام بنانے کے لیے اپنی کاوشیں کی ہوں۔

ہم لیاقت علی خان پر اس الزام کا ذکر پہلے بھی کر چکے ہیں کہ وہ امریکا نواز تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ روایت انہیں ورثے میں جناح صاحب سے ملی تھی۔ جناح صاحب کی امریکا دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ 5اکتوبر 1947 میں قائد اعظم کے ایلچی لائق علی نے امریکی حکام کو ایک یادداشت پیش کی تھی جس میں ان سے پاکستان کو قرضے کی فراہمی کی درخواست کی گئی تھی۔

ایم ایس وینکٹے رامانی کی کتاب ”پاکستان میں امریکا کا کردار“ کے اردو ترجمے کے صفحہ نمبر 24-23 پر درج ہے کہ لائق علی نے محکمہء خارجہ کو دو مزید کاغذات پیش کیے۔ ایک میں پاکستان کی ضروریات کی تشریحات تھیں اور دوسرے میں مختلف ضرورتوں کا جواز پیش کیا گیا تھا۔ ان میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو صنعتی ترقی کے لیے 70 کروڑ ڈالر، زرعی ترقی کے لیے 70 کروڑ ڈالر اور اپنی دفاعی سروسز کی تعمیر و آلات کی فراہمی کے لیے 51 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ دو ارب ڈالر کے لگ بھگ مجموعی رقم پانچ برس کی مدت میں استعمال کے لیے قرضے کے طور پر طلب کی گئی تھی۔

ان حقائق کی روشنی میں ایک بات تو واضح ہے کہ لیاقت علی خان نے پاک امریکا دوستی کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ آغاز قائدِ اعظم کی موجودگی میں تقسیم ہند سے قبل اور اس کے بعد ہو چکا تھا۔ لیاقت علی خان کے ساتھ ایک المیہ یہ تھا کہ انہوں نے جناح صاحب جیسے بااختیار گورنر جنرل کے ساتھ کام کیا تھا۔ جب تک جناح صاحب حیات رہے، کابینہ کے تمام اجلاس ان کی سربراہی میں ہوتے تھے اور فیصلہ کن شخصیت ان ہی کی تھی۔

لیاقت علی خان کے پورے دور حکومت میں آئین نہ بن سکا۔ انہیں اپنے ہم عصر سیاستدانوں خصوصاً حسین شہید سہروردی کی عوامی مقبولیت کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا۔ اس حوالے سے ان کے ذہنی تحفظات بھی تھے۔ لیاقت علی خان ایک انتہائی محتاط شخص تھے۔ حد یہ تھی کہ وہ بھی انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے لیکن ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کے دفتری عملے میں کوئی ایسا فرد نہ ہو جو انڈیا اور پاکستان کی دہری شہریت رکھتا ہو۔ نعیم احمد کی مرتب کردہ کتاب ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 40-39 پر لکھا ہے:

"وزیرِ اعظم عملے کے انتخاب میں نہایت محتاط تھے۔ جب کام ذرا زیادہ بڑھا تو اپنے ذاتی عملے میں ایک اور افسر کا اضافہ کیا، یعنی آپ نے ایک ڈپٹی پرائیوٹ سیکریٹری کی تعیناتی کا فیصلہ کیا۔ اس افسر کے انتخاب میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے۔

"وزیر اعظم کو تین آدمیوں کا پینل پیش کیا گیا جس میں سے انہوں نے میاں منظور احمد کو چنا۔ ایم ایم احمد کا انتخاب اس بناء پر کیا گیا تھا کہ اس کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا، جبکہ دوسرے دو کا تعلق اتر پردیش وغیرہ سے تھا اور ان کے رشتے دار اتر پردیش میں موجود تھے۔

"ایسا فیصلہ کسی علاقائی تعصب کی بناء پر نہیں تھا بلکہ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ چونکہ پاکستان نیا نیا بنا تھا اور وزیر اعظم کے دفتر میں نہایت اہم اور خفیہ دستاویزات ہوتی تھیں، اس لیے ایسا آدمی زیادہ بہتر سمجھا گیا جس کا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہندوستان سے کسی قسم کا تعلق نہ ہو۔ کیونکہ وہ لوگ جن کے رشتے دار ابھی ہندوستان میں موجود تھے، ان کی حیثیت ابھی دوغلے پاکستانی یا دو کشتیوں میں سوار کی سی تھی۔ ہندوستانی ایجنٹ کسی وقت بھی ایسے آدمی کو خرید سکتے تھے۔"

لیاقت علی خان پر مہاجر نوازی کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے لیکن اس مثال سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بطور وزیر اعظم وہ کسی بھی ایسے اردو بولنے والے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہ تھے جن کے تقسیم کے بعد بھی انڈیا میں رشتے دار بستے ہوں۔ لیاقت علی خان پر ایک اور الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے مذہب کو سیاست میں آئینی اور قانونی طور پر متعارف کروایا، لیکن وہ اس حوالے سے بھی محتاط تھے کہ ان کے عملے میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جس کی کسی مذہبی تنظیم سے جذباتی وابستگی ہو۔ نعیم احمد اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 20-19 پر اس کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:

"پرائم منسٹر برانچ میں ایک کلرک جس کا نام رحمت الہٰی تھا، وہ اس برانچ میں سرکاری کاغذات ڈائری کرنے کے کام کرتا تھا۔ یہ آدمی نہایت خاموش اور سنجیدہ قسم کا تھا۔ چند ماہ نوکری کے بعد اس شخص کے بارے میں انٹیلی جنس بیورو سے یہ رپورٹ آئی کہ اس کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ اس شخص کو یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر وہ یہ کہہ دے کہ اس کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں تو اس کی ملازمت میں کوئی خلل واقع نہ ہوگا ورنہ اسے نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔

"لیکن وہ نہایت دلیر انسان تھا۔ اس نے جواب دیا کہ جماعت سے وابستگی کی وجہ سے ایسی ہی رپورٹ کی بناء پر اسے فوج سے جہاں وہ بطور کمیشنڈ افسر زیر تربیت تھا، نکال دیا گیا تھا۔ یہاں تو میں صرف ایک کلرک ہوں۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ لہٰذا رحمت الہٰی نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ رحمت الہٰی وہ ہیں جو اب چودھری رحمت الہٰی کے نام سے جماعت اسلامی کے بڑے کارکنوں میں شامل ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ان کی کابینہ میں بطور وزیر پانی و بجلی کچھ عرصہ کام کرتے رہے۔

پاکستان میں لیاقت علی خان سے لے کر بینظیر بھٹو تک جتنے بھی سیاسی لیڈر قتل ہوئے اُن کے قتل کی سازش کس نے، کب اور کیوں تیار کی یہ ایک راز ہی ہے۔ لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیق کرنے والے افسر اور اس حوالے سے تمام دستاویزات ایک ہوائی حادثے میں انجام کو پہنچ گئیں۔ سید نور احمد اپنی کتاب ”مارشل لاء سے مارشل لاء تک“ کے صفحہ نمبر 397-396 پر اس تمام کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں:

"نوابزادہ اعتزاز الدین جو اس مقدمے کی تفتیش کے متعلق اہم کاغذات ساتھ لے کر وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کی طلبی پر ان سے گفتگو کرنے کے لیے ہوائی جہاز سے جا رہے تھے۔ ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ ہوائی جہاز کو یہ حادثہ جہلم کے قریب پیش آیا جہاں کسی اندرونی خرابی کی وجہ سے جہاز کو آگ لگ گئی اور مسافر اور ان کا سامان (اور لیاقت علی خان کے قتل کے مقدمے کے متعلق اہم کاغذات) نذر آتش ہو گئے۔

"لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جو نئی کابینہ بنی تھی، اس میں نواب مشتاق احمد گورمانی کو جو اس سے پہلے وزیر برائے امورِ کشمیر تھے، وزیرِ داخلہ کا عہدہ مل گیا تھا۔ قتل کے متعلق تفتیش بے نتیجہ رہی تو لامحالہ گورمانی صاحب کو اعتراضات کا نشانہ بننا پڑا۔ ان اعتراضات سے بچنے کے لیے انہوں نے بہت دیر بعد ایک مرحلے پر انگلستان کے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد حاصل کی اور وہاں سے ایک ماہر سراغ رساں کو بلا کر تفتیش پر مامور کیا۔ لیکن یہ اقدام بھی محض اتمام حجت ثابت ہوا۔ اس سے لیاقت علی خان کے قتل کے اسباب پر کوئی روشنی نہ پڑ سکی۔

اس کے بعد 1958 میں ایک عجیب انکشاف ہوا۔ فروری 1958 میں جب ہتکِ عزت کا مشہور مقدمہ گورمانی بنام زیڈ اے سلہری لاہور میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے روبرو زیرِ سماعت تھا تو ایک نکتے کی تصدیق کے لیے عدالت نے لیاقت علی خان کے قتل کے متعلق پولیس کی تفتیشی کارروائیوں کی فائل کا ملاحظہ کرنا چاہا اور اٹارنی جنرل پاکستان سے جو عدالت میں موجود تھے، دریافت کیا کہ کیا اس تفتیش کے متعلق سرکاری فائل عدالت کو مہیا کی جاسکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے 25 فروری 1958 تک ضروری معلومات مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو عدالت نے اٹارنی جنرل کو ایک چٹھی بھجوائی۔ اس نے جواب میں کہا کہ متعلقہ فائل حکومتِ مغربی پاکستان کے چیف سیکرٹری کی تحویل میں ہے۔ عدالت نے اس فائل کو منگوانے کے لیے سمن جاری کر دیے۔ یکم مارچ 1958 کو صوبائی حکومت کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر بیان کیا کہ متعلقہ فائل گم ہے۔ اس کی تلاش کی جا رہی ہے۔ اس تلاش کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگی گئی۔ 8 مارچ کو سی آئی ڈی کے ایک افسر نے عدالت کو مطلع کیا کہ تلاش کے باوجود اس فائل کا کوئی پتہ نہیں چل سکا لہٰذا حکومت اسے پیش کرنے سے معذور ہے۔

لیاقت علی خان کے قتل پر سیاستدانوں کے رویوں کے بارے میں ایوب خان اپنی کتاب ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ کے صفحہ نمبر 70 پر لکھتے ہیں:

"جب میں پاکستان واپس آیا تو مجھے کراچی میں نئی کابینہ کے اراکین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین، چودھری محمد علی، مشتاق احمد گورمانی اور دوسرے لوگوں سے ملاقات کی۔ ان میں سے کسی نے نہ تو مسٹر لیاقت علی خان کا نام لیا اور نہ ان کے منہ سے اس واقعے پر افسوس یا دردمندی کے دو بول ہی نکلے۔

"گورنر جنرل غلام محمد بھی اس حقیقت سے بے خبر معلوم ہوتے تھے کہ ایک قاتل کی سنگدلانہ حرکت نے ملک کو ایک نہایت قابل اور ممتاز وزیرِ اعظم سے محروم کر دیا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ انسان کیسا بے حس، بے درد اور خود غرض واقع ہوا ہے۔ ان حضرات میں سے ہر ایک نے خود کو کسی نہ کسی طرح ترقی کے بام بلند پر پہنچا دیا تھا۔ وزیر اعظم کی موت نے گویا ان کے لیے ترقی کی نئی راہیں کھول دی تھیں۔ اس بات سے دل میں حد درجہ کراہت اور نفرت پیدا ہوتی تھی۔ بات تو بے شک تلخ ہے، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ان سب لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ہو کہ وہ واحد ہستی جو ان سب کو قابو میں ررکھ سکتی تھی، دنیا سے اُٹھ گئی ہے۔"

Read Comments