نقطہ نظر

عالمی اور اردو ادب: تخلیق و ترجمے کی کہانی

باریک بینی سے دیکھا جائے تو مترجم کی طرف سے کہانیوں کے ترجمے میں کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا۔

دنیا میں کہانی کہنے کا فن نیا نہیں، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اسے بیان کرنے کے اطوار تبدیل ہوتے گئے۔ داستان گوئی اور زبانی طور پر کہانی کو بیان کرنے کے فن نے جب تحریری شکل اختیارکی تو کئی اصناف سخن نے جنم لیا اور کہانی کہنے کے فن کو معراج بخشی۔ ایسی مقبول اصناف میں داستان نگاری، ڈراما نویسی، ناول نگاری اور افسانہ نویسی شامل ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں ان اصناف کو برتا گیا اور شاندار کہانیاں تخلیق ہوئیں۔ مغرب میں انگریزی زبان میں جتنا کچھ تخلیق کیا گیا، اس کے اثرات بشمول پاکستان، دنیا کے تمام ممالک نے قبول کیے۔

اردو زبان میں مختصر کہانی لکھنے کے اس فن کو افسانہ نویسی کہا گیا۔ اس فن کی روایت بھی مغرب سے مستعار لی گئی۔ 17ویں صدی کے اختتام پر انگریزی زبان میں مغرب نے افسانہ نویسی کی مضبوط بنیاد رکھی۔ افسانہ نویسی بطورِ فن قبول عام ہوا، اس صنف میں لکھنے والوں کو مقبولیت ملنا شروع ہوئی۔ مزید آگے چل کر اس فن میں بھی کئی شاخیں نمودار ہوئیں، لیکن مجموعی حیثیت میں اس فن سے دنیا متاثر رہی، جن میں اردو زبان کے لکھنے والے بھی شامل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں بھی افسانہ نویسی کو شہرت حاصل ہوئی۔

اردو زبان میں مغربی اصناف میں سب سے زیادہ کہانی بیان کرنے کی جس تحریری صنف کو پسند کیا گیا، وہ ناول نگاری ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہترین تخلیقی ناول لکھے گئے اور بہت سارے مغربی ناولوں کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ ترجمہ کیے جانے کے تناسب میں ناول کی صنف سرفہرست رہی۔ اردو زبان میں اب تک ہونے والے تراجم پر نظر ڈالی جائے، تو بہت کم معیاری تراجم دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ پیشہ ورانہ طور پر ترجمے کا کام نہ ہونا ہے۔

اس فن کے لیے پاکستان میں ماضی میں کچھ کام ہوا، مگر موجودہ دور میں یہ فن پھر سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ عہد حاضر میں تو انتہائی غیرمعیاری تراجم کا ڈھیر دکھائی دیتا ہے، ایسے میں بہت کم مترجم دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے معیار کو پیمانہ بنایا اور کہانی کی حساسیت کومجروح کیے بنا ترجمہ کیا۔

طویل عرصے کے بعد مغربی افسانوں کے معیاری تراجم پڑھنے کو ملے۔ یہ تراجم ”عالمی ادب کے شاہکار افسانے“ کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہوئے ہیں، اور اس کے مترجم سلیم صدیقی ہیں۔ اس مجموعے کو کراچی سے رنگ ادب پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ ان افسانوں کے معیاری ہونے کی بڑی وجہ مترجم کا زرخیز ادبی پس منظر ہونا ہے۔ ان تینوں جلدوں کے مترجم سلیم صدیقی ایک فعال ادبی شخصیت ہیں۔ یہ پاکستان رائٹرز گلڈ میں متحرک رہے، مقتدر ادبی رسالوں میں ان کی ترجمہ کی ہوئی کہانیاں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن اور تھیٹر ڈرامے سے بھی وابستگی رہی، جبکہ شعر و ادب، کلاسیکی موسیقی، فلم اور مصوری جیسے موضوعات پر بھی طبع آزمائی کرتے رہے۔

اس مجموعے کی تین جلدوں میں 48 افسانہ نویسوں کی کل 55 کہانیوں کا ترجمہ کیا گیا ہے، جبکہ 1 کہانی جاپانی لوک داستان ہے۔ پہلی جلد میں 18کہانیاں، دوسری جلد میں 19 کہانیاں جبکہ تیسری جلد میں بھی 19 کہانیاں شامل ہیں۔ کچھ ادیبوں کی ایک سے زیادہ کہانیوں کو بھی ترجمے میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ تمام کہانیاں دنیا کے مختلف ممالک کی مقامی زبانوں میں لکھی گئیں، اور ان ممالک میں فرانس، روس، جرمنی، برطانیہ، ہنگری، اٹلی، فن لینڈ، ہالینڈ، اسپین، امریکا، چیکوسلوواکیہ، رومانیہ، کوسٹاریکا، آئرلینڈ، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، نائیجیریا، انڈونیشیا، چین اور انڈیا شامل ہیں۔

مترجم نے ان تمام کہانیوں کے ترجمے کے لیے انگریزی زبان سے استفادہ کیا۔ اس عالمی کہانیوں کے انتخاب میں زیادہ تر کلاسیکی ادیب شامل ہیں، جن میں گائے ڈی موپساں، لیو ٹالسٹائی، میکسم گورکی، لوئی آدمک، کلمان، مکس زاتھ، اوہنری، فیرینس مولنار، ڈینو بذاٹی، ڈئیلن تھامس، وی ایس پریچیٹ، جیمز تھربر، مارتی لارنی، ڈیمون رنیون، ول کیپی، اے جی میکڈونیل، پی جی وڈ ہاؤس، اینٹن چیخوف، فرانسوئز کوپی، الفونسے دادے، ہرمان ہیئر مانز، چنواچی بے، ڈبلیوسمرسیٹ ماہم، ماتیوایل مان، ساکی، آرنلڈ بینٹ، ای بی وائٹ، ملک راج آنند، پال میکنمار، ڈی ایچ لارنس، ہرمان سندر مان، جان نیرودا، رولڈ ڈاہل، شرلے جیکسن، اسٹیفن لی کاک، رڈیارڈ کپلنگ، لوئیگی پیرن ڈیل، وسی وولوڈگارشن، سیزار پیٹریسکو، ریکارڈ فرنینڈز گارسیا، کارل چاپیک، لارڈ نسانے، سیلمہ لاغرلوف، جینز پیٹر جیکبیسین، آلڈس ہکسلے، کرٹ وونی گٹ، رنگ لارڈنز، جارن اسٹرین جارنسین، لوہسون، پرموئیدیا اننتا تور، ساکی، اور رابرٹ ایم کوٹس شامل ہیں۔

کتاب کا سرورق اور پچھلا حصہ.

باریک بینی سے دیکھا جائے تو مترجم کی طرف سے کہانیوں کے ترجمے میں کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا۔ کلاسیکی اور جدید دونوں طرز کی کہانیاں شامل ہیں۔ ادیبوں کے ممالک اور کہانیوں کے وقت کی بھی کوئی حد بندی نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے کہانیوں کی کوئی ترتیب نظر نہیں آئی۔ عمومی طور پر جب سیریز کے انداز میں کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس میں اس نوعیت کی حد بندیوں کو شامل کرنا پڑتا ہے تاکہ قاری کو کہانیوں کی ترتیب اور مزاج سمجھنے میں آسانی رہے۔ اس انتخاب میں بہت سارے ادیب ایسے ہیں جن کے نام سے عام طور پر اردو زبان کے قارئین واقف نہیں ہیں، اس لیے یہ ناگزیر تھا کہ افسانہ نگاروں کا مختصر تعارف بھی شامل ہوتا تاکہ جن کے لیے یہ کہانیاں ترجمہ کی گئی ہیں وہ ان کہانیوں کے پس منظر اور ادیب کی فنی حیثیت سے بھی واقف ہوسکتے۔ لیکن یہاں مترجم نے سوائے کہانیاں ترجمہ کر کے مختلف جلدوں میں تقسیم کرنے کے اور کوئی شعوری کوشش نہیں کی، جس سے اردو زبان میں ان غیر ملکی کہانیوں کو پڑھنے والے قاری کو آسانی میسر آسکتی۔ آخرکار اردو زبان کا قاری غیر ملکی کہانیوں میں کیوں دلچسپی لے گا اگر وہ اس معاشرے اور ادیب سے واقف نہیں، جہاں کی یہ کہانی ترجمہ ہو کر اس تک پہنچی ہے۔

مترجم سلیم صدیقی

مترجم سلیم صدیقی کا اس حوالے سے یہ مؤقف ہے ”میں نے اپنی پسند کو ہی معیار بنایا، جو کہانی مجھے پسند آئی، اس کو میں نے ترجمہ کیا۔ اس انتخاب میں بہت سارے نام ایسے ہیں، جن کو میں شامل کرنا چاہتا تھا، لیکن شامل نہیں کر سکا، اس لیے میرا ارادہ ہے کہ اس سلسلے کو مزید وسعت دوں تاکہ مزید جلدوں میں جو ادیب اور کہانیاں چھوٹ گئی ہیں، ان کو شامل کیا جاسکے۔

"میں نے اس انتخاب کو اپنی پسند اور معیار کے مطابق ترتیب دیا ہے، کیونکہ میں اسے ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ یہ کہانیاں میں ایک طویل عرصے سے ترجمہ کرتا ہوا آ رہا ہوں، جو مختلف ادبی رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ میں عمر کی ساتویں دہائی میں بھی پہنچنے کے باوجود اردو زبان کو ادبی، ثقافتی اور فنی طور پر فروغ دینے کا خواہاں ہوں۔ اپنی اس زبان کو کلاسیکی اور جدید ترقی پسندانہ عالمی جمالیاتی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے کی گئی کوششوں میں شامل رہنا چاہتا ہوں۔“

مجموعی حیثیت میں ترجمہ شدہ کہانیوں کی زبان انتہائی سادہ ہے۔ بالخصوص کلاسیکی ادیبوں کی کہانیوں کو جب ترجمہ کیا جائے، تو اتنی سادگی زیب نہیں دیتی، کچھ ادبی چاشنی بھی شامل ہونی چاہیے، جس سے اردوزبان کا قاری نہ صرف بخوبی واقف بلکہ کسی حد تک اس کا عادی بھی ہے۔ بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود ایسے تراجم کا ہونا بھی غنیمت ہے، جس کے لیے مترجم کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ دنیا میں اپنے ادب کو متعارف کروانے اور ان کے ادب سے واقف ہونے کے لیے ترجمے کے شعبے کو مضبوط کیا جائے، تاکہ اردو زبان اور اس کے ادب کو بھی فروغ ملے اور دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوسکے۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔