• KHI: Partly Cloudy 26.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.4°C
  • ISB: Cloudy 15.6°C
  • KHI: Partly Cloudy 26.9°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.4°C
  • ISB: Cloudy 15.6°C

عالمی اور اردو ادب: تخلیق و ترجمے کی کہانی

شائع October 30, 2015 اپ ڈیٹ September 6, 2017

دنیا میں کہانی کہنے کا فن نیا نہیں، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اسے بیان کرنے کے اطوار تبدیل ہوتے گئے۔ داستان گوئی اور زبانی طور پر کہانی کو بیان کرنے کے فن نے جب تحریری شکل اختیارکی تو کئی اصناف سخن نے جنم لیا اور کہانی کہنے کے فن کو معراج بخشی۔ ایسی مقبول اصناف میں داستان نگاری، ڈراما نویسی، ناول نگاری اور افسانہ نویسی شامل ہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں ان اصناف کو برتا گیا اور شاندار کہانیاں تخلیق ہوئیں۔ مغرب میں انگریزی زبان میں جتنا کچھ تخلیق کیا گیا، اس کے اثرات بشمول پاکستان، دنیا کے تمام ممالک نے قبول کیے۔

اردو زبان میں مختصر کہانی لکھنے کے اس فن کو افسانہ نویسی کہا گیا۔ اس فن کی روایت بھی مغرب سے مستعار لی گئی۔ 17ویں صدی کے اختتام پر انگریزی زبان میں مغرب نے افسانہ نویسی کی مضبوط بنیاد رکھی۔ افسانہ نویسی بطورِ فن قبول عام ہوا، اس صنف میں لکھنے والوں کو مقبولیت ملنا شروع ہوئی۔ مزید آگے چل کر اس فن میں بھی کئی شاخیں نمودار ہوئیں، لیکن مجموعی حیثیت میں اس فن سے دنیا متاثر رہی، جن میں اردو زبان کے لکھنے والے بھی شامل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں بھی افسانہ نویسی کو شہرت حاصل ہوئی۔

اردو زبان میں مغربی اصناف میں سب سے زیادہ کہانی بیان کرنے کی جس تحریری صنف کو پسند کیا گیا، وہ ناول نگاری ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہترین تخلیقی ناول لکھے گئے اور بہت سارے مغربی ناولوں کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ ترجمہ کیے جانے کے تناسب میں ناول کی صنف سرفہرست رہی۔ اردو زبان میں اب تک ہونے والے تراجم پر نظر ڈالی جائے، تو بہت کم معیاری تراجم دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ پیشہ ورانہ طور پر ترجمے کا کام نہ ہونا ہے۔

اس فن کے لیے پاکستان میں ماضی میں کچھ کام ہوا، مگر موجودہ دور میں یہ فن پھر سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ عہد حاضر میں تو انتہائی غیرمعیاری تراجم کا ڈھیر دکھائی دیتا ہے، ایسے میں بہت کم مترجم دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے معیار کو پیمانہ بنایا اور کہانی کی حساسیت کومجروح کیے بنا ترجمہ کیا۔

طویل عرصے کے بعد مغربی افسانوں کے معیاری تراجم پڑھنے کو ملے۔ یہ تراجم ”عالمی ادب کے شاہکار افسانے“ کے نام سے تین جلدوں میں شائع ہوئے ہیں، اور اس کے مترجم سلیم صدیقی ہیں۔ اس مجموعے کو کراچی سے رنگ ادب پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ ان افسانوں کے معیاری ہونے کی بڑی وجہ مترجم کا زرخیز ادبی پس منظر ہونا ہے۔ ان تینوں جلدوں کے مترجم سلیم صدیقی ایک فعال ادبی شخصیت ہیں۔ یہ پاکستان رائٹرز گلڈ میں متحرک رہے، مقتدر ادبی رسالوں میں ان کی ترجمہ کی ہوئی کہانیاں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن اور تھیٹر ڈرامے سے بھی وابستگی رہی، جبکہ شعر و ادب، کلاسیکی موسیقی، فلم اور مصوری جیسے موضوعات پر بھی طبع آزمائی کرتے رہے۔

اس مجموعے کی تین جلدوں میں 48 افسانہ نویسوں کی کل 55 کہانیوں کا ترجمہ کیا گیا ہے، جبکہ 1 کہانی جاپانی لوک داستان ہے۔ پہلی جلد میں 18کہانیاں، دوسری جلد میں 19 کہانیاں جبکہ تیسری جلد میں بھی 19 کہانیاں شامل ہیں۔ کچھ ادیبوں کی ایک سے زیادہ کہانیوں کو بھی ترجمے میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ تمام کہانیاں دنیا کے مختلف ممالک کی مقامی زبانوں میں لکھی گئیں، اور ان ممالک میں فرانس، روس، جرمنی، برطانیہ، ہنگری، اٹلی، فن لینڈ، ہالینڈ، اسپین، امریکا، چیکوسلوواکیہ، رومانیہ، کوسٹاریکا، آئرلینڈ، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، نائیجیریا، انڈونیشیا، چین اور انڈیا شامل ہیں۔

مترجم نے ان تمام کہانیوں کے ترجمے کے لیے انگریزی زبان سے استفادہ کیا۔ اس عالمی کہانیوں کے انتخاب میں زیادہ تر کلاسیکی ادیب شامل ہیں، جن میں گائے ڈی موپساں، لیو ٹالسٹائی، میکسم گورکی، لوئی آدمک، کلمان، مکس زاتھ، اوہنری، فیرینس مولنار، ڈینو بذاٹی، ڈئیلن تھامس، وی ایس پریچیٹ، جیمز تھربر، مارتی لارنی، ڈیمون رنیون، ول کیپی، اے جی میکڈونیل، پی جی وڈ ہاؤس، اینٹن چیخوف، فرانسوئز کوپی، الفونسے دادے، ہرمان ہیئر مانز، چنواچی بے، ڈبلیوسمرسیٹ ماہم، ماتیوایل مان، ساکی، آرنلڈ بینٹ، ای بی وائٹ، ملک راج آنند، پال میکنمار، ڈی ایچ لارنس، ہرمان سندر مان، جان نیرودا، رولڈ ڈاہل، شرلے جیکسن، اسٹیفن لی کاک، رڈیارڈ کپلنگ، لوئیگی پیرن ڈیل، وسی وولوڈگارشن، سیزار پیٹریسکو، ریکارڈ فرنینڈز گارسیا، کارل چاپیک، لارڈ نسانے، سیلمہ لاغرلوف، جینز پیٹر جیکبیسین، آلڈس ہکسلے، کرٹ وونی گٹ، رنگ لارڈنز، جارن اسٹرین جارنسین، لوہسون، پرموئیدیا اننتا تور، ساکی، اور رابرٹ ایم کوٹس شامل ہیں۔

کتاب کا سرورق اور پچھلا حصہ.
کتاب کا سرورق اور پچھلا حصہ.

باریک بینی سے دیکھا جائے تو مترجم کی طرف سے کہانیوں کے ترجمے میں کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا گیا۔ کلاسیکی اور جدید دونوں طرز کی کہانیاں شامل ہیں۔ ادیبوں کے ممالک اور کہانیوں کے وقت کی بھی کوئی حد بندی نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے کہانیوں کی کوئی ترتیب نظر نہیں آئی۔ عمومی طور پر جب سیریز کے انداز میں کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس میں اس نوعیت کی حد بندیوں کو شامل کرنا پڑتا ہے تاکہ قاری کو کہانیوں کی ترتیب اور مزاج سمجھنے میں آسانی رہے۔ اس انتخاب میں بہت سارے ادیب ایسے ہیں جن کے نام سے عام طور پر اردو زبان کے قارئین واقف نہیں ہیں، اس لیے یہ ناگزیر تھا کہ افسانہ نگاروں کا مختصر تعارف بھی شامل ہوتا تاکہ جن کے لیے یہ کہانیاں ترجمہ کی گئی ہیں وہ ان کہانیوں کے پس منظر اور ادیب کی فنی حیثیت سے بھی واقف ہوسکتے۔ لیکن یہاں مترجم نے سوائے کہانیاں ترجمہ کر کے مختلف جلدوں میں تقسیم کرنے کے اور کوئی شعوری کوشش نہیں کی، جس سے اردو زبان میں ان غیر ملکی کہانیوں کو پڑھنے والے قاری کو آسانی میسر آسکتی۔ آخرکار اردو زبان کا قاری غیر ملکی کہانیوں میں کیوں دلچسپی لے گا اگر وہ اس معاشرے اور ادیب سے واقف نہیں، جہاں کی یہ کہانی ترجمہ ہو کر اس تک پہنچی ہے۔

مترجم سلیم صدیقی
مترجم سلیم صدیقی

مترجم سلیم صدیقی کا اس حوالے سے یہ مؤقف ہے ”میں نے اپنی پسند کو ہی معیار بنایا، جو کہانی مجھے پسند آئی، اس کو میں نے ترجمہ کیا۔ اس انتخاب میں بہت سارے نام ایسے ہیں، جن کو میں شامل کرنا چاہتا تھا، لیکن شامل نہیں کر سکا، اس لیے میرا ارادہ ہے کہ اس سلسلے کو مزید وسعت دوں تاکہ مزید جلدوں میں جو ادیب اور کہانیاں چھوٹ گئی ہیں، ان کو شامل کیا جاسکے۔

"میں نے اس انتخاب کو اپنی پسند اور معیار کے مطابق ترتیب دیا ہے، کیونکہ میں اسے ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ یہ کہانیاں میں ایک طویل عرصے سے ترجمہ کرتا ہوا آ رہا ہوں، جو مختلف ادبی رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔ میں عمر کی ساتویں دہائی میں بھی پہنچنے کے باوجود اردو زبان کو ادبی، ثقافتی اور فنی طور پر فروغ دینے کا خواہاں ہوں۔ اپنی اس زبان کو کلاسیکی اور جدید ترقی پسندانہ عالمی جمالیاتی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے کی گئی کوششوں میں شامل رہنا چاہتا ہوں۔“

مجموعی حیثیت میں ترجمہ شدہ کہانیوں کی زبان انتہائی سادہ ہے۔ بالخصوص کلاسیکی ادیبوں کی کہانیوں کو جب ترجمہ کیا جائے، تو اتنی سادگی زیب نہیں دیتی، کچھ ادبی چاشنی بھی شامل ہونی چاہیے، جس سے اردوزبان کا قاری نہ صرف بخوبی واقف بلکہ کسی حد تک اس کا عادی بھی ہے۔ بہرحال ان تمام باتوں کے باوجود ایسے تراجم کا ہونا بھی غنیمت ہے، جس کے لیے مترجم کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ دنیا میں اپنے ادب کو متعارف کروانے اور ان کے ادب سے واقف ہونے کے لیے ترجمے کے شعبے کو مضبوط کیا جائے، تاکہ اردو زبان اور اس کے ادب کو بھی فروغ ملے اور دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوسکے۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (7) بند ہیں

سجاد خالد Oct 30, 2015 05:19pm
ادبی چاشنی سادگی سے مختلف ہوتی ہے تو آپ کی بات درست ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔ سادگی تو بذاتِ خود ادب کی ایک اہم قدر ہے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 30, 2015 05:30pm
چونکہ محترم سلیم صدیقی صاحب نے اپنی پسند اور معیار کے مطابق کہانیوں کا چناؤ کیا ہے، اس لیے قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیکھے کہ سلیم احمد صدیقی صاحب کی پسند کیا ہے؟ پسند ڈھونڈھنے کے لیے سلیم صدیقی صاحب کی زندگی کا ایک خاکہ دیکھنا ہو گا جس میں ان کی تعلیم، سکول، مادری زبان، سیاسی اور ثقافتی وابستگی خاص ہیں۔ جب مجھے اس خاکہ بارے علم ہو گا تو میں اس پوزیشن میں آ جاؤں گا کہ سلیم احمد صدیقی کی پسند کیا ہے اور ان کے منتخب افسانوں کا معیار کیا ہے۔ پھر ہی کتاب خریدنے اور پڑھنے کا فیصلہ ہو گا۔
شیخ نوید Oct 30, 2015 08:31pm
سلیم صدیقی صاحب کا وجود ہمارے اردو ادب کیلئے ایک غنیمت ہے ۔ سلیم صاحب ان گنے چنے ترجمہ نگاروں میں شامل ہیں جوکسی بھی فن پارے کو ترجمہ کرتے ہوئے وہی ادبی تاثر قائم رکھتے ہیں جو اس فن پارے کی اورجنل زبان میں ہوتا ہے ۔ اگر میں یہ بات کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ سلیم صدیقی اردو ترجمے کیلئے ایک معیار بن چکے ہیں اور ان کی کسی بھی کتاب کو اٹھاتے وقت ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ ایک شہ پارہ پڑھنے کو ملے گا۔ اوڈیسی کی ترجمہ واضح مثال ہے ۔میرا خیال ہےنئے مترجمین ان کے فن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ امید ہے سلیم صاحب کے دیگر کاوشوں سے بھی ہم جلد مستفید ہوں گے۔
MAJEED REHMANI Oct 31, 2015 01:52am
TRANSLATION IS CONNECTING BRIDGE BETWEEN TWO LANGUAGES. TWO DIFFERENT SOCIETIES AND CULTURES ARE INTRODUCED TO EACH OTHER THOUGH TRANSLATION. VARIOUS CLASSICS OF GLOBAL LITERATURE HAVE BEEN TRANSLATED INTO URDU. ITS NEED OF TIME TO CONVERT 21ST CENTURY LITERATURE INTO URDU. THIS WORK OF SALIM SIDDIQUI SAHIB IS APPRECIABLE. KHURAM SUHAIL SAHIB IS DOING SOCIO-LITERARY SERVICE BY INTRODUCING NEW ARRIVALS IN LITERATURE. OBJECTIVE ANALYSIS OF THESE THREE VOLUMES PROVIDES THE POSITIVE GUIDE LINE TO THE READERS.
ghulam sarwar Oct 31, 2015 06:03pm
iam so happy that our pakistani writers or bussy to do and brighting the name of our country. its too difficult to translate the ideas of other writer in own language
فہمینہ ارشد Nov 01, 2015 09:15am
جہاں تک افسانوں کے انتخاب کی بات ہے ، خود مترجم سلیم صدیقی صاحب نے اپنی تینوں جلدوں کے آغاز میں عالمی طور پر مستند تنقید نگاروں سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد غیر ملکی افسانوں کے انتخاب میں اپنی کسوٹی یا اُصول کا ذکر کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ’’ میں نے افسانہ نگاروں کے بڑے ناموں سے مرعوب ہوئے بغیر سب سے پہلے یہ دیکھا کہ مصنف کے افسانے کا پلاٹ ، تھیم ، اور اسٹائل اور اس کے بیان کرنے کا اسٹرکچر کتنا جاندار ہے۔ پھر اس کے ساتھ یہ دیکھا کہ افسانے کی زبان کے انداز کا انتخاب اور فنی تکنیک کیسی ہے۔ اُس کے ماحول اور ماحول سے پیدا شدہ جذبات کا بیان اور کرداروں اور ان کی حیثیت کے بارے میں کیا جذبات اور رویہ رکھتا ہے۔ کیا وہ اُن کے بارے میں ہمدردانہ احساسات رکھتا ہے ، یا اس معاملے میں وہ غیر جانبدارانہ رہ کر ان کی کردار نگاری کرنا چاہتا ہے۔‘‘ پڑھنے کے بعد مجھے تمام ہی افسانے اِس معیار پر اترتے ہوئے اور بہت خوبصورت لگے، جس کیلئے مترجم سلیم صدیقی کے علاوہ پبلشر ’’ رنگِ ادب پبلیکیشنز۔کراچی بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
حنیف عابد Nov 06, 2015 12:46pm
خرم سہیل صاحب بہت خوب آپ نے جس باریک بینی سے سلیم صدیقی کی کتابوں کا تجزیہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ بلا شبہ ان کتابوں میں جن مصنفین کی کہانیاں شامل کی گئی ہیں ان کا مختصر تعارف ضرور شامل ہو نا چاہیے ۔ زبان وبیان کے حوالے سے جن نکات کی نشاندہی کی ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن ہر شخص کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے ۔ سلیم صدیقی سادہ طبعیت اور مزاج کے حامل ہے یہی سادگی ان کی تحریر میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔ مجموعی طور پر سلیم صدیقی کی یہ کاوش بہت عمدہ ہے ۔ اس سے کم از کم نئے افسانہ لکھنے والوں کو سیکھنے کے مواقع میسر آئیں گے ۔ جو مغرب کے افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھنے کے بجائے ان پر لکھے گئے مضامین پڑھ کر اپنی مرضی سے نقالی شروع کردیتے ہیں اور افسانے کے نام پر ایک عجیب و غیرب چیز تخلیق کربیٹھتے ہیں ۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ اپنی اس تخلیق پر داد بھی چاہتے ہیں ۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025