’یہ منحوس غزل کتنوں کی جان لے گی؟‘
ابن انشاء ایک دلکش کردار تھے؛ شاعر، سفارت کار، مصنف اور مارکسسٹ۔ تاہم ان کی وجہ شہرت ان کی نظمیں ہیں جو باقاعدگی سے ادبی جریدوں میں شائع ہوتی تھیں۔
1970ء کی دہائی کے شروع میں انہوں نے ایک غزل لکھی جس نے انہیں عروج پر پہنچا دیا اور یہ تھی ’انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو۔‘
یہ غزل ایک افسردہ شخص کے بارے میں تھی جس نے ایک رات کسی محفل (ممکنہ طور پر قحبہ خانے) میں گزاری اور پھر اچانک اٹھنے اور جانے کا فیصلہ کرلیا، نہ صرف اس جگہ سے، بلکہ شہر سے بھی۔
وہ اپنے گھر واپس جاتا ہے اور وہاں علی الصبح پہنچتا ہے۔ وہ اس تعجب کا شکار ہوتا ہے کہ اپنے محبوب کو کیا جواز پیش کرے گا۔
وہ ایسا شخص ہے جسے غلط سمجھا گیا ہے، اور اب وہ جو اسکے مطابق لایعنی وجود ہے، اس میں مطلب ڈھونڈنے نکلا ہے.
اس غزل نے جلد ہی معروف کلاسیکل اور غزل گلوکار امانت علی خان کی دلچسپی حاصل کرلی۔
امانت ایسے الفاظ کی تلاش میں تھے جو شہری زندگی (لاہور اور کراچی) کے درد کو بیان کرسکیں۔
کسی نے انہیں ابن انشاء کی انشاء جی اٹھو تھمائی اور امانت علی خان نے فوری طور پر اسے گانے کی خواہش کا اظہار کردیا۔
انہوں نے ابن انشاء سے ملاقات کی اور مظاہرہ کرکے بتایا کہ انہوں نے کیسے اس غزل کو گانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ انشاء امانت سے متاثر ہوئے جنہوں نے خود کو اس غزل کے ٹھکرائے ہوئے مرکزی کردار میں ڈھال لیا تھا.