ابن انشاء ایک دلکش کردار تھے؛ شاعر، سفارت کار، مصنف اور مارکسسٹ۔ تاہم ان کی وجہ شہرت ان کی نظمیں ہیں جو باقاعدگی سے ادبی جریدوں میں شائع ہوتی تھیں۔

1970ء کی دہائی کے شروع میں انہوں نے ایک غزل لکھی جس نے انہیں عروج پر پہنچا دیا اور یہ تھی ’انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو۔‘

یہ غزل ایک افسردہ شخص کے بارے میں تھی جس نے ایک رات کسی محفل (ممکنہ طور پر قحبہ خانے) میں گزاری اور پھر اچانک اٹھنے اور جانے کا فیصلہ کرلیا، نہ صرف اس جگہ سے، بلکہ شہر سے بھی۔

وہ اپنے گھر واپس جاتا ہے اور وہاں علی الصبح پہنچتا ہے۔ وہ اس تعجب کا شکار ہوتا ہے کہ اپنے محبوب کو کیا جواز پیش کرے گا۔

وہ ایسا شخص ہے جسے غلط سمجھا گیا ہے، اور اب وہ جو اسکے مطابق لایعنی وجود ہے، اس میں مطلب ڈھونڈنے نکلا ہے.

اس غزل نے جلد ہی معروف کلاسیکل اور غزل گلوکار امانت علی خان کی دلچسپی حاصل کرلی۔

امانت ایسے الفاظ کی تلاش میں تھے جو شہری زندگی (لاہور اور کراچی) کے درد کو بیان کرسکیں۔

کسی نے انہیں ابن انشاء کی انشاء جی اٹھو تھمائی اور امانت علی خان نے فوری طور پر اسے گانے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

انہوں نے ابن انشاء سے ملاقات کی اور مظاہرہ کرکے بتایا کہ انہوں نے کیسے اس غزل کو گانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ انشاء امانت سے متاثر ہوئے جنہوں نے خود کو اس غزل کے ٹھکرائے ہوئے مرکزی کردار میں ڈھال لیا تھا.

امانت علی خان
امانت علی خان

جب امانت علی خان نے پہلی بار یہ غزل پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر جنوری 1974ء میں گائی تو فوری طور پر چینل سے لاتعداد خطوط میں اس غزل کو دوبارہ چلانے کی فرمائش کی جانے لگی۔ یہ امانت علی خان کی سب سے بڑی ہٹ ثابت ہوئی۔

`

`

مگر اس کامیابی سے لطف اندوز ہونے کے چند ماہ بعد ہی امانت علی خان کا اچانک انتقال ہوگیا۔ اُن کی عمر صرف 52 سال تھی۔

پھر جنوری 1978ء یعنی امانت علی خان کی جانب سے پہلی بار پی ٹی وی پر نشر ہونے کے ٹھیک 4 سال بعد اس غزل کو لکھنے والے ابن انشاء بھی چل بسے۔

اُنہیں 1977ء میں کینسر کے باعث مشکلات کا سامنا ہوا تھا اور وہ علاج کے لیے لندن گئے تھے۔ انہوں نے بڑی تعداد میں قریبی دوستوں کو خطوط ہسپتال کے بستر سے تحریر کیے۔ ایسے ہی ایک آخری خط میں انہوں نے لکھا کہ وہ انشاء جی اٹھو کی کامیابی اور امانت علی خان کی موت پر حیران ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد انہوں نے اپنی گرتی ہوئی حالت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا

عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب

اُس کے اگلے ہی روز ابنِ انشاء کا انتقال ہوگیا۔ اُس وقت ان کی عمر صرف 50 سال تھی۔

اسد امانت علی
اسد امانت علی

امانت علی کے بیٹے اسد امانت علی بھی مشرقی کلاسیکل اور غزل گانے کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے 1974ء میں اپنے والد کی موت کے بعد باقاعدگی سے پی ٹی وی پر پرفارم کرنا شروع کردیا تھا مگر اپنے والد کے برعکس اسد نے اردو فلموں کے لیے بھی بطور پلے بیک سنگر گانا شروع کیا۔ انہیں عزت و شہرت 1980ء کی دہائی میں ملی۔

وہ غزل کنسرٹس کے لیے مقبول تھے اور اپنی مشہور غزلیں، فلمی گانے اور وہ جو ان کے والد کی تھیں، گاتے تھے۔ 2006ء میں پی ٹی وی میں ایک کنسرٹ کے دوران انہوں نے اختتامیے کے طور پر انشاء جی اٹھو گائی۔ اتفاقاً یہ ان کا آخری کنسرٹ ثابت ہوا اور انشاء جی اٹھو وہ آخری گانا تھا جو انہوں نے عوام کے سامنے کسی پرفارمنس کے دوران گایا۔

چند ماہ بعد ہی اسد کا انتقال ہوگیا، بالکل ویسے ہی جیسے اُن کے والد کا 33 سال قبل اچانک ہوا تھا۔ اسد کی عمر بھی موت کے وقت اپنے والد کی طرح 52 سال تھی۔

اسد کے بھائی شفقت امانت علی 2000ء کی دہائی کے ابتداء سے ابھر کر سیمی کلاسیکل اور پاپ گلوکار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ پاپ بینڈ فیوژن میں شامل ہوکر مرکزی دھارے کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اس بینڈ کو صرف ایک (مگر انتہائی کامیاب) البم ریکارڈ کروانے کے بعد چھوڑ دیا تھا اور اپنا سولو کریئر شروع کردیا تھا جو کہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا۔

کنسرٹس (اور ٹی وی میں بھی) شفقت سے اکثر پرستاروں کی جانب سے انشاء جی اٹھو گانے کی درخواست کی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ انکار کرتے ہیں۔ صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ اسے گانے سے ڈرتے ہیں بلکہ اس لیے کیونکہ 2007ء میں ان کے بھائی کی موت اور 1974ء میں والد کی موت کے بعد شفقت کے خاندان نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ کبھی بھی انشاء جی اٹھو نہ گائیں، یہ غزل اور گانا بظاہر 3 افراد (امانت علی خان، ابن انشاء اور اسد امانت علی) کی جانیں لے چکا ہے۔

غزل کے لکھاری ابن انشاء کے وہ الفاظ جو انہوں نے 1978ء میں ہسپتال کے بستر سے تحریر کیے، کو دہراتے ہوئے شفقت کے خاندان نے بھی اصرار کیا کہ یہ غزل نحوست کا شکار ہے۔ مزید برآں غزلوں کے پرستاروں میں اس کی مقبولیت کے برعکس بہت کم گلوکاروں نے ہی اسے گانے کی کوشش کی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ ان 3 شخصیات کے احترام کے باعث اسے نہیں گاتے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، جبکہ دیگر کا اعتراف ہے کہ ایک خوف اُنہیں اسے گانے سے دور رکھتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 1 نومبر 2015 کو شائع ہوا.

تبصرے (9) بند ہیں

Adnan Nov 04, 2015 11:50am
Nadeem Sahib, coke studios main ye ghazal ga ker is waham ko ghalat sabit ker dain
Tahir Nov 04, 2015 05:20pm
i would request CORRUPTION to sing this Ghazal.
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Nov 04, 2015 09:54pm
ہاں ایسا اتفاق ضرور ہوا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ کوئی غزل کی نحوست کسی کی جان لے سکتی ہے جب یہ غزل اپنے عروج پر تھی تو ہر جگہ یہی غزل لوگ گاتے تھے لیکن شائید ان پر نحوست کا اثر نہیں ہوا بحرحال انشاء جی خود ہی کہ گئے کہ یہ غزل منحوس ہے توکیا کہا جاسکتا ہے
noonemce Nov 04, 2015 09:58pm
massod ashar wrote about the same topic with same details in jung of 3rd nov 15 http://jang.com.pk/jang/nov2015-daily/03-11-2015/col8.htm
یمین الاسلام زبیری Nov 05, 2015 03:26am
میرا خیال ہے کہ اس غزل کے پیچھے انشا جی کا سرطان کا مرض کار فرما ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے ندیم کی اس بات سے اختلاف ہے کہ یہاں کسی پینے پلانے اور قحبہ خانے کے چکر لگانے والے کا بیان ہے۔ میرے نذدیک یہ کسی بے روزگار کا گانا ہے، وہ گھر نہیں جانا چاہتا کہ روز کی آنا کل کل سے وہ گھبراتا ہے۔
ghulam zahira Nov 07, 2015 02:58pm
so informative
M. Khaliq Jan 12, 2018 10:40am
What I heard from a friend is that Ibn Insha wrote this Ghazal when the doctor diagnosed him with cancer. He expressed his sadness how he would be able to inform his family members about the sad news. So it has nothing to do with the Ghazal. I believe the write has not done his homework before writing this article.
Lateef Shaikh Jan 12, 2018 06:22pm
So called liberal, promoting stupid beliefs! This ghazal is also performed by Ustad Hamid Ali and he is 65! (Search YouTube)
ommal memon Jan 12, 2018 07:16pm
ye mehz tohmat parasti hai or kuch nahi.