کھیل

پیرس دھماکوں کے وقت اسٹیڈیم میں کیا ہوا؟

جس وقت پیرس میں حملے کیے گئے، فرانس اور جرمنی کی ٹیموں کے درمیان انٹرنیشنل میچ مجاری تھا جس میں فرنچ صدر بھی موجود تھے.

پیرس کے فٹبال گراؤنڈ میں 80ہزار سے زائد شائقین فرانس اور موجودہ عالمی چیمپیئن جرمنی کے درمیان میچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ یکدم دھماکوں کی آواز سنائی دی۔

گراؤنڈ میں موجود فرانسیسی ٹیم کے ایک نوجوان شائق نے بتایا کہ وہ سمجھا کہ شاید کوئی آتش بازی ہو رہی ہے، مگر پھر اس کے دوست نے اسے بتایا کہ پیرس میں کیا ہو رہا ہے۔

جب میچ کے پہلے ہاف کے دوران اسٹیڈیم کے باہر سے تین دھماکوں کی آوازیں سنائی دی تو اسٹیڈم میں میچ سے لطف اندوز ہوتے شائقین کی تمام تر خوشیاں اس وقت پریشانیوں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئیں جب انہیں گراؤنڈ کے باہر تین افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی۔

لیکن کچھ دیر بعد ورلڈ کپ 1998 کے فائنل کی میزبانی کرنے والے اس گراؤنڈ کے باہر ہلاکتوں کی تعداد پانچ تک پہنچ گئی. واقعے میں 40 افراد زخمی ہوئے جن میں سے دس کی حالت نازک ہے۔

پولیس ذرائع نے بعد میں تصدیق کی کہ اسٹیڈیم کے باہر دھماکا خیز مواد پہنے ایک شخص نے خود کو دھماکے سے اڑا کر خود کش دھماکا کیا۔اس موقع پر میدان میں فرانسیسی صدر فرانسو ہولاندے بھی موجود تھے جنہیں بعد شہر میں جاری کشیدہ صورتحال اور لوگوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبر سے آگاہ کیا گیا۔

ایک صحافی نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ کھیل جاری تھا اور یہ بہت ہی ہولناک لمحہ تھا ۔۔۔ سچ کہوں تو میں بہت سہم گیا تھا۔اسٹیڈیم پر اچانک رونما ہونے والے ہیلی کاپٹرز کی موجودگی اور باہر سے آنے والی سائرن کی آوازوں کے باوجود ابتدا میں بہت کم ہی لوگ گراؤنڈ سے باہر جاری خوفناک صورتحال سے واقف تھے۔

اس تمام تر صورتحال کے باوجود بھی لوگ جیروڈ اور متبادل کھلاڑی ایندرے پیرے کے گول پر جشن منا رہے تھے جس کی بدولت فرانس نے عالمی چیمپیئن کو دوستانہ میچ میں شکست دی۔

تاہم جیسے میچ ختم ہونے کی سیٹی بجائی گئی تو اسٹیڈیم میں موجود سخت سیکیورٹی نے لوگوں کو ہراساں کرنا شروع کردیا۔

اس موقع پر خارجی دروازے بند ہونے کے سبب شائقین کی بڑی تعداد میدان میں جمع ہو گئی۔

اس مشکل وقت میں کسی قسم کی بے ہنگم صورتحال یا افراتفری دیکھنے میں نہیں آئی اور پھر مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد گراؤنڈ کو خالی کروا لیا گیا۔

گراؤنڈ کے باہر موجود ایک صحافی کے مطابق سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس کے فارنسک ماہرین اور افسران نے ایک مشہور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کی جامع تلاشی لی۔

لیکن اس واقعے کے سبب جرمن ٹیم کو سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے رات اسٹیڈیم میں ہی گزارنی پڑی کیونکہ حکام انہیں اسٹیڈیم سے ہوٹل تک لے جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے.

جرمن منیجر الیور بیروف نے کہا کہ صورتحال واضح نہیں تھی اور کھلاڑی بہت پریشان تھے. ہم سڑک تک جانے اور ڈرائیو کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے کیونکہ یہ 100 فیصد محفوظ نہیں تھا لہٰذا ہم نے ڈریسنگ روم میں رہنے کو ترجیح دی.

تماشائیوں کو میدان سے نکالتے نکالتے رات 12 سے زائد کا وقت ہو چکا تھا جہاں کچھ لوگوں نے اپنی گاڑیوں کی راہ لی تو دیگر گھروں کو واپسی کے لیے ٹرین پکڑنے کی تگ و دو میں نظر آئے۔

اپنے ہاتھ میں فرانسیسی پرچم تھامے 27 سالہ سارا گوپال نے بتایا کہ شہر کی مشہور ٹرین لائن کام نہیں کر رہی تھی، یہ 13 تاریخ ایک سیاہ دن تھا۔

لیکن یہی نہیں بلکہ دن کے آغاز میں اس وقت ڈرامائی مناظر دیکھنے کو ملے جب جرمن ٹیم کو بم کی اطلاع پر ان کے ہوٹل سے باہر نکال لیا گیا تھا۔

اس واقعے پر دنیا بھر سمیت فٹبال کے حلقے بھی حیران اور واقعے پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔

پیرس کی لیگ ٹیم پیرس سینٹ جرمین کے سپر اسٹار اینجل ڈی مریا نے واقعے پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ابھی واقعے کے بارے میں پتہ چلا، یہ بہت افسوسناک ہے، ایسی چیزوں کو روکنا ہو گا۔

اس واقعے کی وجہ سے بیونس آئرس میں ارجنٹینا اور برازیل کے درمیان میچ سے قبل ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔

جہاں عالمی برادری اس واقعے پر افسردہ ہے، وہیں انگلش فٹبال ایسوسی ایشن نے منگل کو فرانس سے شیڈول اپنے دوستانہ میچ کو ملتوی کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔

منگل کو لندن کے ویمبلے اسٹیڈیم میں انگلینڈ اور فرانس کے درمیان میچ کھیلا جانا ہے جس پر اب شکوک کے بادل چھا چکے ہیں۔

انگلش فٹبال ایسوسی ایشن کے ترجمان کے مطابق یہ بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے جس پر ہم فرانسیسی عوام سے دلی گہرائیوں سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں، منگل کے حوالے سے کسی بھی قسم کی پیشرفت پر ہم بعد میں عوام کو آگاہ کریں گے۔

ملک میں تین روزہ یوم سوگ کے اعلان کے بعد فرنچ فٹبال ایسوسی ایشن نے اپنی ٹیم کے تمام ایونٹ منسوخ کردیے ہیں۔