ناقص حکومتی پالیسی، بجلی صارفین ریلیف سے محروم
اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ مالی سال 15-2014 میں حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں کسی قسم کی اہم پیش رفت سامنے نہیں آسکی تاہم حکومت کی پالیسوں کے باعث بجلی کے ایماندار صارفین کو چوری اور سسٹم لاسسز کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک کے توانائی کے شعبے کے حوالے سے جاری ایک رپورٹ اس بات کا انکشاف میں کیا، مذکورہ رپورٹ رواں ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بین الاقوامی طور پر تیل کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کا ریلیف صارفین تک پہنچانے میں بھی قاصر رہا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ حکومت نے خستہ حال ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام کی صلاحیت میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے گذشتہ مالی سال میں توانائی کی پیداوار میں معمولی سے اضافے پر زور دیا.
دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی کم قیمتوں کے باعث ملک میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع، ریسرچ اور ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔
مالی سال 15-2014 کی رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ’توانائی سیکٹر میں بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والا اہم ایندھن، فرنس آئل کی قیمت میں مالی سال 2015 میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اس سے پیدواری لاگت میں کمی کے بجائے گذشتہ سال میں اس کی پیدوار میں معمولی (1.6 فیصد) بہتری آئی ہے اور یہ اضافہ طلب کے تخمینہ سے بھی کم ہے‘۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ملک میں موجود بجلی کے پیدوار کے یونٹس اپنی (صلاحیت کے مطابق) پیدوار کو ایک چوتھائی تک بڑھا دیں تو اس اضافی توانائی کو صارفین تک پہنچانے کے لیے ترسیل کا سسٹم ہی موجود نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’بدقسمتی سے، توانائی کے شعبے میں بنائی جانے والی پالیسیز پیداوار کو بڑھانے کے لیے ہے تاہم اس میں اس کی ترسیل کے حوالے سے اقدامات نہیں اٹھائے گئے‘۔
یہ بات بھی مرکزی بینک کے مشاہدے میں آئی کہ حکومت نے پیداواری لاگت میں کمی کے فوائد صارفین تک پہنچانے کے لیے ان کے فیول سرچارجز میں کمی کی منظوری دی۔ جس کے نتیجے میں، سرکلر ڈیٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی لیکویڈیٹی کی روکاوٹیں فرنس آئل کی قیمتوں میں کمی پر مرکوز ہونے کے بجائے بجلی کی پیدوار میں اضافے پر مرکوز کی گئیں۔
خاص طور پر مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں توانائی کی فراہمی کے سلسلے میں فرموں سے بڑھتی ہوئی وصولی فرنس آئل کی درآمد کو متاثر کررہی تھی۔
عین اسی وقت نجی پیداواری ادارے بھی پیداواری لاگت (فرانس آئل کی قیمت) کو کم کرنے کے بجائے مالی مشکلات سے کے باعث پیداوار کو بڑھا رہے تھے۔
اس کے بعد حکومت نے ملک میں توانائی کے شعبے میں فرنس آئل کے استعمال کو کم کرنے کا فیصلہ کیا، جو کہ 2014 میں 38.5 فیصد سے کم ہوکر 2015 میں 33.2 فیصد رہ گیا۔
رپورٹ کے مطابق ’ملک میں بجلی کی پیدوار کا سب سے کم لاگت والا ہائیڈرو پاور سیکٹر سیاسی مسائل کے باعث توجہ حاصل نہیں کرسکا‘۔
عالمی منڈی میں تیل کی کم ہوتی ہوئی قیمت کے باعث حکومت نے پاور سیکٹر کی سبسڈی میں کمی کردی جو کہ 2014 میں 309 ارب روپے تھی اور 2015 میں کم ہو کر 292 ارب روپے رہ گئی۔
اس کے بعد تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اٹھانے اور سرکلر ڈیٹ کا مسئلے حل کرنے کے لیے حکومت نے تین مختلف سرچارجز ریشنلائزیشن سرچارجز 1.54 روپے فی کلو واٹ، قرض سروسنگ سرچارجز 43 پیسے فی یونٹ اور نیلم جہلم سرچارجز 10 پیسے فی یونٹ کا نیا ٹیرف متعارف کروایا۔
یہ خبر 25 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔