پاکستان کرکٹ کا 'رولر کوسٹر' سال
پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے قیام سے لے کر آج تک 'نازک موڑ' پر ہی کھڑا ہے اور یہی بات قومی کرکٹ پر بھی صادق آتی ہے۔ جیسے جیسے ملک میں کرکٹ کی مقبولیت بڑھتی گئی اس کی ہنگامہ خیزی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
پھر دنیا نے نئے ہزاریے میں قدم رکھا تو پاکستان کرکٹ نے اس کا استقبال جسٹس قیوم کمیشن کے تحت میچ فکسنگ کی تحقیقات سے کیا، اور نئی صدی کے پندرہویں سال کا اختتام فکسنگ ہی میں ملوث ایک کھلاڑی کو 'قومی دھارے' میں واپس لانے کی کوششوں سے ہوا ہے۔ خیر، کرکٹ ایک کھیل ہے اور کوئی کھیل بھی ایسی ہنگامہ خیزی سے آزاد نہیں۔ پھر کرکٹ جیسا کھیل ایک جذباتی قوم کے ہاتھ لگ جائے تو مزا 'دو آتشہ' ہو جاتا ہے۔
سال 2015 بھی کسی لحاظ سے گزرے سالوں سے مختلف نہیں تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں شکست کی وجہ سے دل کو بہت گہرا زخم لگا۔ لیکن اس کے بعد پاکستان نے سری لنکا اور انگلینڈ کے خلاف تاریخی کامیابیاں بھی سمیٹیں۔ یوں مجموعی طور پر یہ بھی ایک ملا جلا سال تھا۔ ٹیسٹ میں فتوحات اور محدود اوورز کی کرکٹ میں شکستوں سے عبارت ایک اور سال۔
پاکستان نے 2015 کا آغاز نیوزی لینڈ کے دورے سے کیا۔ یہ ایک مختصر مہم تھی، جس کا مقصد ورلڈ کپ سے پہلے کچھ لہو گرمانا تھا۔ لیکن دو کراری شکستوں کے بعد سارے جذبات ٹھنڈے پڑ گئے۔ پاکستان ایسا بے حال ہوا کہ ورلڈ کپ کی مہم شروع ہوتے ہی نہ صرف ہندوستان بلکہ ویسٹ انڈیز تک سے ہار گیا۔ زمبابوے اور متحدہ عرب امارات کے خلاف اگلے میچوں میں کامیابیاں حاصل کرکے اوسان بحال کیے تو جنوبی افریقہ کے خلاف ورلڈ کپ کا سب سے مشکل مقابلہ سامنے کھڑا تھا۔
بعد میں یہی مقابلہ ٹورنامنٹ کے دلچسپ ترین میچز میں شمار ہوا۔ پاکستان جنوبی افریقہ کو صرف 232 رنز کا ہدف دے سکا اور شاندار باؤلنگ کر کے اس کے 6 کھلاڑی 102 رنز پر ہی آؤٹ کردیے۔ لیکن ابھی اے بی ڈی ولیئرز موجود تھے، دنیائے کرکٹ کے خطرناک ترین بیٹسمین، جو اننگز انہوں نے کھیلی پاکستان کے دانتوں پر پسینہ آ گیا ہوگا۔ جب ہدف صرف 32 رنز کے فاصلے پر تھا تو سہیل خان کے ایک باؤنسر نے ان کی اننگز کا کام تمام کردیا اور پاکستان نے کچھ ہی دیر بعد میچ 29 رنز سے جیت لیا۔ اس میچ کی جھلکیاں اب بھی جذباتی کر دیتی ہیں کہ کس طرح پاکستان نے ڈی ولیئرز کے بڑھتے ہوئے طوفان کا منہ موڑا۔
بہرحال، بعد میں آئرلینڈ کو شکست دے کر پاکستان کوارٹر فائنل تک تو پہنچ گیا لیکن وہاں مقابلہ آسٹریلیا سے پڑ گیا۔ میزبان اور عالمی نمبر ایک، جو بعد میں ورلڈ چیمپئن بھی بنا۔ آسٹریلیا کے لیے پاکستان کو شکست دینا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا اور اس نے مقابلہ باآسانی جیتا بھی۔
البتہ اس میچ میں وہاب ریاض کی جانب سے پھینکے گئے ایک باؤلنگ اسپیل نے عالمگیر شہرت ضرور سمیٹی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا "شین واٹسن اب گئے کہ تب گئے،" بہرحال، کسی نہ کسی طرح جسم پر کئی گیندیں کھانے، اپنا منہ گیند کی زد سے بچانے اور کیچ چھوٹنے کی صورت میں نئی زندگی ملنے کے بعد بالآخر وہ بچ ہی گئے اور آسٹریلیا نے پاکستان کو عالمی کپ کی دوڑ سے باہر کردیا۔