برطانیہ :’ٹیرس‘ یا ’ٹیررسٹ‘؟ مسلمان بچے سے تفتیش
لندن: انگلینڈ کے شمال مغرب میں واقع لنکا شائر میں 10 سالہ مسلمان بچے کو غلطی سے ’ٹیرسڈ ہاؤس‘ کے بجائے ’ٹیررسٹ ہاؤس‘ لکھنے پر پچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 7 دسمبر کو لنکا شائر کی پرائمری اسکول میں زیر تعلیم 10 سالہ مسلمان بچے نے اسکول میں انگلش کے مضمون کی کلاس کے دوران ایک موقع پر’ٹیررسٹ ہاؤس‘ (terrorist house) لکھ دیا۔
بچے کے یہ لکھنے پر ٹیچر نے اسکول انتظامیہ کو اس سے آگاہ کیا جس کے بعد انتظامیہ نے پولیس سے مدد مانگی۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں ’کاؤنٹر ٹیررازم اینڈ سیکیورٹی ایکٹ 2015‘ کے تحت اسکول انتظامیہ قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ کسی بھی طالب علم کی مشتبہ سرگرمی کی پولیس کو اطلاع دے۔
یہ بھی پڑیں : 'گرفتاری نے 14 سالہ طالبعلم کی زندگی بدل دی'
واقعے کے اگلے روز لنکا شائر پولیس بچے اور اس کے اہلخانہ سے پوچھ گچھ کے لیے اس کے گھر پہنچ گئی جہاں بچے کے والدین نے دعویٰ کیا کہ بچہ اصل میں ’ٹیرسڈ ہاؤس‘ (terraced house) لکھنا چاہتا تھا۔
تاہم پولیس اور کنٹری کونسل کا کہنا تھا کہ یہ بات ماننا مشکل ہے کہ یہ محض ایک غلطی تھی۔
پولیس نے اپنے اطمینان کے بعد معاملے کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ اس پر اب مزید کسی ایکشن کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم بچے کے اہلخانہ نے اس تمام واقعے پر پولیس اور اسکول انتظامیہ سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔
بچے کی ایک کزن نے ’بی بی سی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کا پتہ چلنے کے بعد پہلے پہل انہیں یہ تمام واقعہ محض ایک مذاق لگا، کیونکہ آپ ایک چھوٹے سے یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ اس نے ایسا جان بوجھ کر لکھا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹیچر کو بچے سے کوئی مسئلہ تھا تو وہ صرف اس کی ہجے کی غلطی کو لے کر تھا، جو کسی صورت ایسی غلطی نہیں تھی بچے سے پولیس پوچھ گچھ کرتی، اس واقعے کے بعد بچہ بہت خوفزدہ ہے اور کچھ بھی لکھنے سے ڈرتا ہے۔
مزید پڑھیں : طالبعلم احمد محمد کا امریکا چھوڑنے کا فیصلہ
برطانیہ کی مسلم کونسل کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل مقداد ورثی کا واقعے کے حوالے سے کہنا تھا کہ برطانیہ میں اسکول میں زیر تعلیم مسلمان بچوں کو دہشت گردی کے نام پر زدو کوب کیے جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی برطانیہ میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں، جس پر مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ مغربی ممالک میں اسکول میں پڑھنے والے مسلمان بچوں سے ایسے کسی واقعے پر پوچھ گچھ کرنے اور ان میں خوف و ہراس پھیلانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سال 14 ستمبر کو امریکی ریاست ٹیکساس کے میک آرتھر ہائی اسکول میں زیر تعلیم 14 سالہ مسلمان طالب علم احمد محمد کو بھی بم بنانے کے شبہے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : 14 سالہ طالبعلم وائٹ ہاؤس میں مدعو
احمد محمد اپنی بم کی شکل والی گھڑی کے ہمراہ ریاست کے شہر ارونگ میں واقع اپنے اسکول اس امید کے ساتھ گیا تھا کہ وہ اپنی اس کاوش سے اساتذہ کو متاثر کرسکے گا۔
تاہم اسکول انتظامیہ نے گھڑی کو بم سمجھ کر پولیس کو فون کردیا اور احمد محمد کو ہتھکڑیاں لگا کر بچوں کی جیل منتقل کردیا گیا، تاہم بعد ازاں گھڑی کی تصدیق ہونے پر اسے رہا کردیا گیا۔
اس واقعے نے احمد محمد کے بہتر مستقبل کے لیے کئی راہیں کھول دیں اور مسلمان طالب علم کو دنیا بھر سے کئی آفرز ملی، جبکہ اہم امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی تخلیقی سوچ رکھنے والے اس طالب علم کو اپنے ادارے کا حصہ بنانے کے لیے بے چین نظر آئیں۔
احمد محمد نے واقعے کے چند دن بعد مدعو کیے جانے پر وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات بھی کی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔