Dawn News Television

شائع 30 جنوری 2016 02:17pm

زبانیں معاشی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟

زبان نہ صرف اظہار خیال کا ذریعہ ہوتی ہے بلکہ شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں 30 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور اردو زبان ان تمام مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔

ہندوستان کے مسلمان انگریزی زبان سے ناواقفیت کے باعث تعلیمی میدان میں پیچھے تھے جو ان کی معاشی اور معاشرتی بدحالی کی ایک اہم اور بنیادی وجہ تھی۔ چنانچہ سر سید احمد خان نے اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تعلیمی ادارے قائم کیے اور ان تمام تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو مکمل طور پر رائج کیا۔ سائنٹیفک سوسائٹی کے قیام کا مقصد جدید مغربی تعلیم پر مبنی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا تھا، کیونکہ کوئی بھی چیز جتنے بہتر انداز میں آپ اپنی مادری زبان میں سمجھ سکتے ہیں، اتنے بہتر انداز میں کسی اور زبان میں نہیں، پھر چاہے آپ کو اس زبان پر کتنا ہی عبور کیوں نہ حاصل ہو۔

پاکستان دنیا کی 26 ویں بڑی معیشت ہے اور ملکی مجموعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان عالمی رینکنگ میں 46 ویں نمبر پر ہے، جبکہ ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

پڑھیے: کیا پاکستان معاشی انقلاب کے نزدیک ہے؟

پاکستان کی معاشی ترقی اس وقت ممکن ہے جب قوم کا ہر فرد معاشی ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے، جس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے آگاہی ہو۔

چونکہ ہمارے معاشرے میں بیشتر افراد اور بالخصوص وہ جو تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں، انگریزی نہیں جانتے، اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے سیکھنے اور سکھانے کے اس عمل میں قومی سطح پر اردو اور مقامی سطح پر مقامی زبانوں کو مکمل طور پر رائج کیا جائے۔

یہ آگاہی مختلف طریقوں سے دی جاسکتی ہے۔ ٹی وی پروگرامز اور سیمینارز کے ذریعے ایسی کانفرنسوں اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے جس میں مختلف شعبہ جات بشمول صنعت اور زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو موجودہ وسائل کے ساتھ پیداوار میں بہتری لانے اور اسے بڑھانے کی جدید تکنیکوں سے روشناس کروایا جائے۔

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ معاشیات پر مبنی اردو رسالے شائع کیے جائیں جس میں نہ صرف لوگوں کو ان کے فرائض و حقوق سے متعلق آگاہی دی جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مختلف ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی تفصیلی مضامین شائع کیے جائیں۔ اس طرح لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ہر عام آدمی میں خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ معاشی شعور بیدار ہوگا۔

پڑھیے: بینظیر انکم سپورٹ کتنا فائدہ مند؟

ہمارے پاس یہ چلن عام ہے کہ حکومت کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان کرتی ہے، تو مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر تنقید شروع ہوجاتی ہے، اور عوام حقیقی صورتحال سے لاعلم ہو کر یا مخالف سیاستدانوں کے الزامات پر یقین کر لیتے ہیں، یا پھر حکومتی اعلانات پر۔ اس کے نتیجے میں جو بحث جنم لیتی ہے اس کا اختتام صرف گالم گلوچ اور تکرار اور ایک دوسرے کو کرپشن کا حامی کہنے پر ہی ہوتا ہے۔

اور عام آدمی حقیقی صورتحال سے واقف ہوگا بھی کیسے جب بیسیوں مختلف نیوز چینلز پر صبح شام صرف سیاستدانوں کی تکرار ہی عوام کو سنوائی جاتی ہے مگر کسی بھی چینل پر شعبے کے ماہرین کو بٹھا کر شاذ و نادر ہی گفتگو کروائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے غلط معلومات کا پھیلنا عام ہے. ملک کے چوٹی کے معاشی جریدے اور اخبارات انگریزی زبان میں ہیں جو کہ عوام کی اکثریت نہیں سمجھ سکتی، اور اس کا نتیجہ آخر میں ملکی معیشت کو پہنچتا ہے، جس کی ایک مثال اکثریتی عوام کا اپنی آمدنی پر ٹیکس نہ دینا ہے۔

چونکہ ہمارے یہاں لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے ٹیکسوں کا تمام پیسہ محض کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے یا پھر حکمرانوں کے شاہانہ طرز زندگی پر خرچ کردیا جاتا ہے، جو کہ کسی حد تک صحیح بھی ہے، مگر اس تاثر کی وجہ سے اکثر افراد ٹیکس کی عدم ادائیگی میں ملوث ہیں اور ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لہٰذا لوگوں میں ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مزید پڑھیے: اورنج ٹرین منصوبے کی مخالفت کیوں؟

معاشی مضامین کے حوالے سے شائع ہونے والے ایسے تمام رسالہ جات اردو کے ساتھ ساتھ دیگر مقامی زبانوں میں تحریر ہونے کے باعث عوام معیشت کے تمام پہلوؤں، مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بخوبی واقف ہوں گے۔ ان رسالہ جات کے ذریعے فی کس آمدنی میں اضافے کے لیے ملک کے تمام افراد کو ان کے پیشوں کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔ قدرتی وسائل کے استعمال کا تکنیکی اور سائنسی طریقہ جو کہ موجودہ صدی کے مطابق ہو، اردو کے ذریعے لوگوں کو بتائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح وہ انفرادی طور پر معیشت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔

اگر تعلیمی نظام میں قومی یا علاقائی زبان کو رائج کیا جائے تو طالبعلموں میں علم و آگاہی پروان چڑھے گی اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کا اعتماد بھی بحال ہوگا اور وہ ایک باشعور شہری کہلائیں گے۔ تعلیمی اداروں میں اردو اور انگریزی کی بناء پر کی جانے والی تفریق کا بھی خاتمہ ہوگا اور ملک کا ہر بچہ تعلیم کی نعمت سے فیض یاب ہوسکے گا اور اس طرح ملکی ترقی کا پہیّہ کبھی جام نہیں ہوگا۔

Read Comments