سبسڈیز: غریب نہیں صرف سول سرونٹس کے لیے

05 جنوری 2015
براہ راست پیسوں کو منتقل کرنا عوامی شعبے میں سبسڈیز کو برقرار رکھنے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقہ کار ہے— اے پی/فائل فوٹو
براہ راست پیسوں کو منتقل کرنا عوامی شعبے میں سبسڈیز کو برقرار رکھنے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقہ کار ہے— اے پی/فائل فوٹو

سبسڈیز کا پیچیدہ جال غریب عوام تک وسائل کے بہاﺅ کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ حالانکہ مڈل مین کے کردار کو ختم کرنے سے غربت میں کمی کی کوشش کو فروغ مل سکے گا۔

محققین کا اصرار ہے کہ براہ راست پیسوں کو منتقل کرنا عوامی شعبے میں سبسڈیز کو برقرار رکھنے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقہ کار ہے کیونکہ سبسڈیز کا طریقہ کار شدید غربت کی روک تھام میں ناکام ہوچکا ہے۔

عوامی شعبے کی نااہلی سے بچنے کے لیے غریب افراد کو براہ راست رقوم منتقل کرنے کے حامی اروند سبرامنیم، جو آئی ایم ایف کے سابق ماہر معیشت اور معروف تجارتی ماہر ہیں، کو ہندوستان کے نئے چیف اکنامک ایڈوائزر کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔

غربت میں کمی کے لیے ان کی صاف گوئی اور دلچسپی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہندوستان میں اس مسئلے کے حوالے سے جارحانہ اور بے باک پالیسیاں جلد منظرعام پر آئیں گی۔

ایک طرف ہندوستان ہے جو عوامی شعبے کی سبسڈیز کا ماﺅنٹ ایورسٹ تعمیر کرکے سینکڑوں ارب ڈالرز خرچ کررہا ہے وہیں دوسری طرف پاکستان غربت میں کمی لانے کے لیے نئے خیالات اور حکمت عملیوں کا تجربہ کررہا ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) پر عملدرآمد 2008 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ڈاکٹر سبرامینم انڈین اسٹیبلیشمنٹ کو غریب افراد تک براہ راست رقوم کی منتقلی پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لائن آف کنٹرول پر مارٹرز کے تبادلے کے بجائے دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹس کو غربت کے خلاف کامیاب جنگ اور اپنی عوام کے خوشحال اور مستحکم مستقبل کے لیے تجاویز کا تبادلہ کرنا چاہیے۔

سال 2008 کی ایک دستاویز میں اروند سبرامنیم اور ان کے ساتھیوں نے غریب افراد تک براہ راست رقوم کی منتقلی کی منطق اور ضرورت کی وضاحت کی تھی۔

انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ ہندوستان کی مرکزی اسپانسر اسکیموں (سی ایس ایس) میں نااہلی اور ضیاع کا دور دورہ ہے، اور ایسی اسکیموں کو چلانے کے لیے سرکاری ملازمین کی فوج ظفر موج موجود ہے جو یہ جانچنے میں ناکام ہوچکی ہے کہ ان اسکیموں کے نتائج کیا رہے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مجموعی فنڈز کا بہت کم حصہ ہی غریب افراد تک پہنچ پاتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراشٹر کی ایک اسکیم پر نظرثانی سے انکشاف ہوا کہ صرف 21.6 فیصد فنڈز ہی ضرورت مند افراد تک پہنچ سکے۔

ڈاکٹر سبرامنیم اور ان کے ساتھیوں نے اسٹیٹس کو میں کم از کم چار کمزوریوں کی شناخت کی۔

نااہلی: یہ اسکیمیں حقیقی ضرورت مند افراد کی شناخت اور ان تک رسائی میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

لیکج: سبسڈیز غیرمستحق افراد تک پہنچ رہی ہیں۔

شرکت کے اخراجات: سبسڈی کا اہل ہونے کے لیے مطلوبہ کمائی۔

انتظامی اخراجات: انتظامی سطح پر بھی ان اسکیموں کی فراہمی پر بہت زیادہ اخراجات ہوتے ہیں۔

انہوں نے نااہلی کا باعث بننے والے دو اہم چیلنجز کی شناخت کی، جن میں سے ایک عوامی سیکٹر کے اندر انتہائی گہرائی تک پایا جانے والا استثنیٰ کا کلچر اور دوسرا کمزور مقامی حکومتیں۔

متعدد افسران کو حساب کتاب میں گڑبڑ پر گرفتار کیا گیا مگر بمشکل ہی کسی ایک کو سزا مل سکی۔

ڈاکٹر سبرامنیم اور ان کے ساتھیوں نے ہندوستان میں مرکز کی اسپانسر کردہ اسکیموں کے لیے مختص سبسڈیز کے اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا۔ انہوں نےاس میں ایندھن اور خوراک پر سبسڈیز کے اخراجات بھی شامل کیے جس سے تخمینہ 2008 میں تقریباً ایک سو اسی ہزار کروڑ تک پہنچ گیا۔

انہوں نے یہ تخمینہ بھی لگایا کہ ہندوستان میں سات کروڑ گھرانے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اگر سبسڈیز کی تمام رقم براہ راست ان میں تقسیم کردی جائے تو ماہانہ انہیں 2140 روپے ملیں گے۔ درحقیقت یہ رقم دیہی ہندوستان کے کم آمدنی والے گھرانوں کی ماہانہ آمدنی سے زیادہ ہے، اس طرح کی رقوم منتقل کرنے سے یہ افراد مارکیٹ قیمتوں پر بھی سودا سلف خریدنے کے قابل ہوسکیں گے۔

پاکستانی تجربہ

پاکستان نے اس محاذ پر حیرت انگیز کام کیا ہے اور 2008 میں متعارف کرائے جانے والے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو زبردست کامیابی ملی۔ اس پروگرام کا آغاز 35 لاکھ گھرانوں کی امداد کے لیے 425 ملین ڈالرز فنڈز کے ساتھ کیا گیا۔

اس پروگرام میں 2013-2012 کے دوران توسیع کرتے ہوئے فنڈز کو ستر ارب تک کردیا گیا اور گھرانوں کی تعداد 55 لاکھ کردی گئی۔

اس پروگرام کا اہم عنصر مستحقین کو ٹارگٹ کرنے میں کامیابی ہے۔ بی آئی ایس پی نے مستحقین کو شناخت کرنے کے لیے غربت کے اسکور کارڈ کا استعمال کیا۔ مستحق خاندانوں کو ماہانہ بارہ سو روپے کی معاونت فراہم کی جاتی ہے جو ہر تین ماہ بعد تقسیم کیے جاتے ہیں۔

قومی دیہی سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) بھی غریبوں تک براہ راست رقوم منتقل کرنے کے کامیاب پروگرامز چلا چکا ہے۔

این آر ایس پی نے کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ (سی آئی ایف) متعارف کرایا جس میں دیہات اور مقامی معاون اداروں تک رقوم کی منتقلی کی گئی۔ سی آئی ایف بنیادی طور پر ضروری قرضوں پر مشتمل فنڈ ہے جس کے ذریعے کمرشل بینکوں کی سہولت سے محروم طبقے، یا جو لوگ مائیکرو فنانس کے اہل قرار نہیں پاتے، تک مالیاتی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔

اسی طرح این آر ایس پی بہت غریب افراد کو رقم کی صورت میں یا رقم کے مساوی آمدنی بڑھانے والی گرانٹس بھی فراہم کرتا ہے۔ غریب گھرانے یہ رقم یا مویشی کمیونٹی آرگنائزیشن کی مدد سے سنبھالتے اور استعمال کرتے ہیں۔

صحت، ہسپتال میں داخلے، اور حادثاتی موت کی انشورنس ایک اور اسکیم ہے جس میں انشورنس پریمیئم براہ راست انشورنس کمپنیوں کو ادا کردیا جاتا ہے، اور

آخری بات یہ کہ مائیکروفنانس پروگرامز ان سب کے لیے دستیاب ہیں جو یا تو غربت کی لکیر میں جی رہے ہیں یا اس سے تھوڑا اوپر یا نیچے ہیں۔

مستحق طبقے بہترین تدابیر اور مہم جوئی کی ہمت رکھتے ہیں۔ ایسی اسکیموں کی تشکیل جس کے ذریعے انہیں براہ راست معاونت فراہم کی جاسکے، سے غربت میں کمی لانے کے لیے طویل جدوجہد کرنا ہوگی۔

تاہم اس کی کامیابی کی کنجی اس امر میں پوشیدہ ہے کہ مڈل مین کو اس کے درمیان سے باہر رکھا جائے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں