’’شام ڈھل رہی ہو، تو ماحول میں سوز اور اداسی پیدا ہوجاتی ہے اور اگر اس منظرنامے میں کوئی پرانی ، شکستہ اور تاریخی عمارت بھی موجود ہو، تو پھر یہ اداسی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ میں جب لال قلعے کو دیکھتا ہوں، تو مجھ پر وہی سوز وارد ہوتا ہے، جیسے چاند کو گہن لگ جائے۔ یہ کیفیت بے آواز مگر بے قرار کر دینے والی ہوتی ہے۔‘‘
یہ افسانوی گفتگو انتظار حسین کی ہے، جو انہوں نے مجھ سے ایک مکالمے میں کی تھی۔ اب یہ طرزِ گفتگو اور اس احساس زیاں کو محسوس کرنے والے تقریباً ناپید ہیں، کیونکہ اب تو ادبی منڈی ہے اور ماہر دوکاندار، ایسے ماحول میں انتظارحسین ادب کے سچے قارئین کا اثاثہ تھے۔
انتظار حسین کی نثر، حرفِ دل کی وہ تختی تھی، جس پر کنندہ حروف بچھڑ جانے والوں کی یاد سے شرابور ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیقی تحریریں ہوں یا گفتگو کا لہجہ، ایسا لگتا تھا کہ ہم روایت اور تہذیب کے نمائندے سے بات کر رہے ہیں۔ ہم سے جو مخاطب ہے، وہ ایک ایسی تہذیب کا باسی ہے، جس کا تذکرہ صرف اب کتابوں میں ملتا ہے، مگر انتظار حسین کو سماعت کرتے ہوئے اکثر محسوس ہوتا کہ اگر داستان کوئی ’شخص‘ ہوتا، تو اس کا لہجہ ایسا ہی ہوتا۔
اس روایت کو انہوں نے سینے سے لگا کر رکھا، مشرقی علوم سے دلی لگاؤ، شخصیات سے عقیدت، زمانوں اور تہذیبوں کی سرشاری لیے وہ شخص ہم سے آج بچھڑ گیا ہے، جو تہذیبِ گم گشتہ کا ’آخری داستان گو‘ تھا۔
انہوں نے ہندوستان کی کلاسیکی فضا میں ہوش سنبھالا۔ تقسیم ہند کے موقع پر ہجرت کے تجربے سے گزرے۔ لاہور میں عارضی قیام کی خواہش ہی مستقل سکونت میں تبدیل ہوئی۔ افسانہ نگاری میں ’کرشن چندر‘ سے ابتدائی اثرات قبول کیے، تدریس میں اپنے استاد پروفیسر کرار حسین کا اثر لیا۔
زندگی کو تخلیق کی طرح بسر کرنے والے نے دوست ان کو بنایا جن کی صحبت بھی اپنی تاثیر رکھتی تھی۔ ناصر کاظمی، حنیف رامے، نیاز احمد جیسے ہنرمندوں سے گہرے مراسم ہوئے۔ کہانی کہنے کے فن پر انتظارحسین نے ملکہ حاصل کیا اور ان کے ان سب دوستوں نے بھی اپنی جداگانہ تخلیقی جہتوں میں فتح کے جھنڈے گاڑے۔
مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ انہوں نے اپنے پرکھوں کی داستان گوئی کو بازیافت کیا اور اس کے رنگوں کو پھر سے جاوداں کرنے کو سرگرم ہوئے۔ یہ جنوں ایسا متحرک ہوا کہ اپنے قلم سے کاغذ پر کہانیوں کے ذریعے منظرنامے انڈیلنے لگے۔ کہانیاں قصوں میں تبدیل ہوئیں اور ان سے نئے قصے جنم لینے لگے۔
شاید اسی لیے ان کی افسانوی کلیات کے عنوانات ’جنم کہانیاں‘ اور ’قصہ کہانیاں‘ تھے۔ فکشن لکھنے والے قلم کار کے ہاں تکنیک، حروف کا شعوری برتاؤ، کرداروں کی بنت اور پیش کاری تو ہوتی ہی ہے، مگر انتظار حسین کے ہاں معاملہ مختلف تھا۔ وہ کہانی 'سناتے' تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیاں پڑھنے کا تو قاری کو دھوکہ ہوتا ہے، دراصل وہ کہانی پڑھنے کے بجائے اس کہانی کے لہجے کو سن رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ محوِ سفر ہوتا ہے۔