writers670

کہتے ہیں کہ پاکستان ادبی حیات نو سے گزر رہا ہے -- چاہے وہ چھوٹے سے گاؤں سے ہوں یا کسی بڑے شہر سے ، پاکستانی افسانہ نگار بہت سےادبی  پلیٹ فارم پر داد وصول کر رہے ہیں - حال ہی میں انتظار حسین پاکستان کے اردو ادب کی عظیم آواز کے بارے میں نیویارک ریویو بکس میں شائع ہوا اور انہوں نے 2013  کا مین بکر پرائز بھی جیتا ہے - بہرکیف اس پوری کہانی میں کمی پاکستانی ناشرین کی رہ جاتی ہے -

مصنف اور ترجمہ نگار مشرف علی فاروقی نے اس گومگو کی حالت کو کچھ اس طرح ایک ہی جملے میں بیان کیا ہے کہ " پاکستان میں پبلشنگ کی صنعت کا کوئی معنی خیز شعور نہیں ہے -" فاروقی کے ناول ، ترجمے  اور ان کے  تشریحی کاموں  میں سے ایک سب ملک سے باہر شائع ہوتے ہیں: زیادہ تر انڈیا میں - " انڈیا میں پبلشنگ ایک باقاعدہ صنعت ہے جس میں تمام پروٹوکول اور معیار موجود ہیں جس کی کوئی بھی توقع رکھتا ہے –

یہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی پبلشنگ صنعت ہے اور پوری دنیا میں واحد پبلشنگ صنعت ہے جو دن بہ دن ترقی کر رہی ہے - میں نے تیرہ سالوں میں اپنے مختلف پروجیکٹ انڈیا کے چھے ناشروں سے شائع کرواۓ اور یہ تجربہ خاص کامیاب رہا -"

حالت اتنی بھی دگرگوں نہیں ہے ---- اس وقت اس شعبے میں ایک نۓ کھلاڑی ، آئی ایل کیو اے کی آمد ہوئی ہے ، انہوں نے حال ہی میں ابھی حال میں باپسی سدھوا کے ناول دی کرو ایٹر  کا اردو ترجمہ جنگل والا صاحب کے عنوان سے اور ساتھ ہی ساتھ مختصر کہانیوں کا مجموعہ 'دیئر لینگویج آف لوو'  شائع کیا ہے - سدھوا پاکستان میں شائع ہونے کے تجربے کو بہت شوق سے بیان کرتی ہیں :"آئی  نے دیئرلینگویج آف لوو کے حقوق پینگوئن انڈیا سے خریدے، اسکو شائع بھی کیا اور تقسیم بھی بہتر طریقے سے کیا - انہوں نے مجھ سے میرے پچھلے ناول کو شائع کرنے کے حقوق بھی خریدے ہیں - میں نے دیکھا کہ انہوں نے مجھے جو شرایط پیش کی وہ  ٹھیک تھیں اور انہوں نے مجھے پیشگی ادائیگی بھی فور اً ہی کر دی –

آئی ایل کیو اے کا اشاعتی معیار ہو سکتا ہے  بین الاقوامی طرز کا نہ ہو ، ان کی ایڈیٹنگ کے معیار اور تقسیم کے نیٹ ورک کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں ، بہرکیف  وہ  اپنی سستی جلدوں اور اچھے سرورق والی اشاعت کے ذریے  ایک بڑی عوام کو متوجہ کر رہے ہیں-

آئ ایل کیو اے کے جنرل مینیجر عامر ریاض وضاحت کرتے ہیں : " ہمارا پبلشنگ کا منصوبہ ابھی نیا ہے ، لیکن پھر بھی ہم نے چار سالوں میں 45 عنوانوں کی اشاعت کی ہے جن میں بچوں ، افسانے، شاعری ، تحقیق ،کلاسک اور جوان بالغوں کے لئے کتابیں شامل ہیں - انمیں اکثریت فکشن کی ہے اردو اور انگریزی دونوں میں -"

" اصل میں یہاں پاکستان میں  کوئی ادارہ نہیں ہے جو کہ کتابوں کی اشاعت اور ان سے تعلق رکھنے والے کاموں  کے لئے پیشہ ور تیار کر سکے جیسے ترمیم، املا ، سر ورق کی تیاری اور انکی وضح قطع ، ایسے لوگوں کو تلاش کرنے میں دقت ہوتی ہے - مقامی طور پر شائع ہونے والی کتابوں کی ترمیم بہت بری ہوتی ہے چاہے وہ اردو ہوں یا انگریزی ، ان میں فاش غلطیاں ہوتی ہیں اور سرورق انتہائی بے مزہ - غیرملکی ناشروں اور کتابوں کے ساتھ تجربہ حاصل کر کے ہماری یہ کوشش ہے کہ ہم اپنا معیار اور بڑھائیں -"

بینا شاہ جنہوں نے چار ناول اور دو مختصر کہانیوں کے مجموعے لکھے ہیں شاید ان مٹھی بھر انگریزی فکشن کے لکھاریوں میں سے ہیں جو پاکستان میں شائع ہوئےآکسفورڈ یونیورسٹی پریس ،کراچی اور الحمرا ،اسلام آباد کے زریعے - حالاں کہ انہیں زیادہ بڑی مشکلات پیش نہیں آئیں ، ان کے مطابق " مارکیٹنگ اور تقسیم کے میدان کو ہمیشہ سے زیادہ توجہ کی ضرورت رہی ہے کیوں کے یہاں کام کرنے والوں کی کمی ہے، آپ کو خود تشہیری کے لئے کافی کام کرنا پڑتا ہے ، اس کے علاوہ میں نے موجودہ سالوں میں الحمرا اور ایس اے ایم اے  کو غیر فعال ہوتے دیکھا ہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب اصلی فکشن شائع نہیں کریں گے تو پاکستانی لکھاریوں کے لئے پیشرفت کے راستے مسدود ہو گۓ ہیں  -"

بین الاقوامی اور مقامی سطح پر پبلشنگ ہاؤس  کچھ ہی نام ڈھونڈتے ہیں ان حالات میں نۓ مصنفوں کو ایک سنگین حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے : " بیرون ممالک ناشر اور ان کے ایجنٹ پاکستانی تحریروں میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے چاہے وہ کچھ بھی کہتے ہوں - ایک بار انکی فہرست میں ایک یا دو پاکستانی آجائیں تو پھر وہ اور آگے نہیں دیکھتے - اور جب بھی دشتگردی پر جنگ نے اپنا زاویہ بدلہ اور جیسے ہی  پاکستان سے اس مہینے کا دہشت گرد ذائقہ کا لیبل ہٹا ، تجارتی فکشن اس وقت کی جو بھی ضرورت پوری کر رہا ہو اس پر سے توجہ ہٹ جاۓ گی - " یہ شاہ نے بتایا۔

عائشہ سلمان جن کا پہلا ناول بلیو ڈسٹ رولی پبلیکشن ، انڈیا سے شائع ہوا ، ایک نۓ لکھاری کی حیثیت سے پاکستان میں ناشر کی تلاش کا احوال کچھ یوں بیان کرتی ہیں : " جن ناشر سے میں نے رابطہ کیا وہ پاکستان کے ایک ممتاز ناشر ہیں لیکن وہ میری کتاب کی اشاعت کے لئے کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے تو انہوں نے مجھے یہی مشورہ دیا کے اشاعت کے اخراجات میں خود اٹھاؤں ، میں اس بات سے بہت دل برداشتہ اور ناراض ہو گئی تھی چناچہ میں نے انکار کر دیا –

مجھے اس بات کی بھی خبر تھی کہ پاکستان میں شائع ہوکر مجھے کچھ خاص پذیرائی نہیں ملے گی چناچہ میں نے انڈیا کا رخ کیا -"

انڈیا میں بھی انکا تجربہ بہت اچھا نہیں رہا ، دو سال بعد انڈیا کی ایک بڑے پبلشنگ ہاؤس میں انکی تحریر دیکھنے کے بعد کہا کہ" آپ کا ناول ہمارے کام کا نہیں ہے -" اس کے بعد رولی بکس نے انکی تحریر قبول کی –

" پاکستانی ناشرین یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انگریزی ادبی فکشن کی کوئی مارکیٹ نہیں چناچہ انہیں نقصان کی فکر رہتی ہے لیکن میں اسے سے اختلاف کرتی ہوں - میرے خیال سے پاکستان میں انگریزی فکشن کا مطالعہ کرنے والے بہت ہیں - خاص طور سے نۓ اور ابھرتے ہوئے پاکستانی لکھاریوں کو اور ان میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے - ہمیں اپنے مصنفوں کو بین الاقوامی فکشن کے منظر پرابھارنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے - "

اردو کے حوالے سے بہت سوں کا دعویٰ ہے کے یہ ختم ہو رہی ہے اور اس پڑھنے والے بھی - حقیقت میں اردو پبلشنگ کی صنعت کی حالت زیادہ پر یقین ہے - سنگ میل پبلیکیشن حالاں کہ انگریزی کتابیں شائع کرتے ہیں لیکن اپنی اعلیٰ معیار کی اردو جلدوں اور سرورق کے لئے بھی مشہور ہیں - اس کے مینیجر ڈائریکٹر افضال احمد کہتے ہیں : " ہم عام طور پر اردو افسانے ، تنقید، تاریخ ، سفرنامے شائع کرتے ہیں  اور ساتھ ہی تقسیم سے پہلے کی نایاب کتابوں کو دوبارہ شائع کرتے ہیں -" اپنا کام شائع کروانے میں پاکستانی مصنفوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس پر بات کرتے ہوئے وہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ :" اگر کوئی اپنی تحریر کی اشاعت کے لئے بنا کسی اچھے حوالے کے ناشر کے پاس آتا ہے جیسے جرنل، ادبی رسالوں یا اخبارات میں چھپے ہووے انکے کام ، تو ایسے موقع پر اس کے لئے ناشر کو مطمین کرنا مشکل ہوتا ہے - کیوں کہ بہت کم کتابیں پزیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں حد یہ کہ مصنف خود بھی ہمت ہار جاتا ہے -"

حق کتابت اور پائریسی کی جنگ سے ہٹ کر ، ناشر کو یہاں ہر ایک مستقل خطرے کا سامنا رہتا ہے اور اس کے لئے انہیں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ کیا شائع کرنے جا رہے ہیں - بحث آور مضامین سے ہر قیمت پر بچا جاتا ہے اور نتیجے میں بہت سوں کو غیر فکشن کی اشاعت تک محدود رہنا پڑتا ہے - ادارتی درجے پر بین الاقوامی امداد اور فنڈنگ سے تحقیقی کتابوں کی تو حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن فکشن واضح طور پر  پیچھے رہ جاتا ہے -


ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں