Dawn News Television

اپ ڈیٹ 19 فروری 2016 01:01pm

لینن کا دوسرا رخ

تیسری دنیا کی ورکنگ کلاس کو مارکس ازم کے سگریٹ پینے کی لت پڑ چکی ہے، اور یہ وہی مارکس ازم ہے جو مذہب کو عام آدمی کے لیے افیون قرار دیتا ہے۔

میں نے سابقہ کمیونسٹ ریاستوں کی خاک چھانی ہے۔ کمیونزم ایک ایسا نظام حکومت ہے، جس کا سب سے اہم نقطہ عام آدمی کی انتڑیوں کی جلن دور کرنا ہے، اور جب ایک بھوکے انسان کو کھانا مل جائے، تو وہ کچھ بھی کر لے، اپنے زمینی رازق سے بے وفائی نہیں کیا کرتا۔

میرے کمیونسٹ دوست اگر کمیونزم دور کی ترقی گنواتے ہیں تو اس کا جواب میں ہمیشہ ان کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت وہاں کے ممالک کی ترقی گنوا کر دیتا ہوں۔ حکمران وہی اچھا جو اپنے اپنے ملک میں عمارتیں، اسکول، کالج، اور سڑکیں تعمیر کروائے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔

اگر کمیونسٹ پسند دوستوں کے نزدیک یہی ترقی ہے تو ان سے درخواست ہے کہ ایک نظر عرب ممالک پر ڈال لیجیے، جو نہ صرف اپنوں بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار پیدا کرنے کا سبب بنے ہیں۔ کمیونسٹ دوستو! پھر ان کی بھی تعریف فرما دیجیے۔

ہم سب نے چچا لینن کے بارے میں جو سنا ہے، آئیے اسی کہانی کا دوسرا رخ بھی پڑھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب کے ہر دل عزیز چچا لینن ایک بیوروکریٹ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ روسی تسار یا بادشاہ کے بارے نفرت کی وجہ عوام کی غربت نہیں تھی، بلکہ اپنے بڑے بھائی الکساندر کی سزاۓ موت تھی۔

روسی تسار کے خلاف ایک تقریباً ناکام تحریک سے دلبرداشتہ ولادیمیر الیانوو ایلچ نے مغربی یورپ کا رخ کیا۔ جنیوا ہی وہ شہر ہے جہاں ولادیمیر نے خود کو لینن جیسے فرضی نام سے متعارف کروایا۔ یہ سوئٹزر لینڈ کا جمہوری نظام ہی تھا جس نے لینن کو اس کے بنیادی حقوق دیے۔ لینن اپنے مضامین چھپوا کر لوگوں میں بانٹا کرتا تھا۔

وہ اپنے انتہائی قریبی انقلابی سوچ کے حامل دوست مارتوو کے بر عکس سوچتا تھا۔ مارتوو چاہتا تھا کہ تسار کی حکومت کو کسی قانونی طریقے سے ہٹایا جائے۔ مارتوو اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ ہر انسان اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتا ہے، جبکہ لینن اپنی نئی بنائی گئی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے فیصلوں کو حتمی اور ہر کسی کے لیے اہم قرار دیتا تھا اور فیصلے کو ایک حکم کی صورت میں لوگوں پر صادر کرنے کا حامی تھا۔

لینن کے دوست احباب 1905 کے خونی جلسوں میں شامل تھے۔ جب روسی تسار نے مسلح باغی جلسوں کو اپنی طاقت سے رگڑا، تو لینن بہت پریشان اور انقلاب کے نام سے دل برداشتہ ہو چکا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب لینن نے انقلاب لانے کی ایک نئی ترکیب پیش کی۔ لینن نے اپنے انقلابی دوستوں کو اس بات کا قائل کیا کہ انقلاب عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ لہذا لینن نے پیرس سے کچھ دور ایک کچے گھر کا کمرہ کرائے پر لیا۔

یہی کمرہ انقلابی اسکول کہلایا جہاں سیاست اور ریاست کے امور کو چائے پیتے لینن کے دوست اور لینن خود دن رات پڑھتے اور نت نئے طریقوں پر غور کرتے تھے۔ اسی انقلابی اسکول میں پروپیگنڈا کے مضمون پر کام ہوا اور لینن اپنے دوستوں کو روس واپس بھیج کر خود پولینڈ کے ایک قصبے میں انقلاب کی تاک لگائے بیٹھا رہا۔ وہ انقلاب ایک خواب جو دوبارہ چکنا چور ہوا 1914 میں پہلی جنگ عظیم کی شروعات ہوئی، اور لینن کو روسی جاسوس سمجھ کر گرفتار کیا گیا، مگر کچھ ہی عرصے کے بعد ثبوت کی عدم دستیابی پر رہا کر دیا گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب روسی تسار کی فوجیں بار بار پہلی جنگ عظیم میں شکست کھا چکی تھیں۔ روسی تسار بلاشبہ جھنجھلاہٹ کا شکار تھا۔ لینن اپنے انقلابی جذبے کو ہارتے ہوئے ایک تقریر میں کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ انقلاب جنگ کے پاؤں تلے روندا جا چکا ہے۔

لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ روس میں انہونا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ روس میں اس کے دوست اور خونی انقلابی کارکن انقلاب کی ابتدا کر چکے تھے۔ لینن کو اپنے ہی خواب یعنی انقلاب کی خبر اخباروں سے ملی، روسی تسار اقتدار کی جنگ عوام کے ہاتھوں ہار چکا تھا اور روس میں عبوری حکومت کا قیام بھی لینن کی غیر موجودگی میں ہو چکا تھا۔

کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ آگے کے حالات و واقعات ہم سب کو معلوم ہیں لیکن یہ حقیقت جو اوپر بیان کی گئی ہے، انقلابی کتابوں میں الٹ کر بیان کی گئی ہے۔ ہمارا ایشیائی کمیونسٹ یہی جانتا اور سوچتا ہے کہ لینن انتہائی تگ و دو کرنے والا ایک فولادی انسان تھا۔

وہ یہی جانتا ہے کہ لینن نے انقلاب کی ہر ایک سیڑھی عوام کے ساتھ چڑھی۔ اوپر بیان کیا گیا چچا لینن ہمارے سرخ بچوں کے ہر خواب کی تعبیر ہے۔ بالکل ایسے جیسے دہشتگرد اپنے عزائم کو اسلام کا نام دے کر ان کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جبکہ تاریخی حقائق کا گہرائی سے مطالعہ آسانی سے سب پردے چاک کر سکتا ہے۔

Read Comments