مردم شماری کیلئے جی ایچ کیو کی مدد درکار
اسلام آباد: قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ حکومت اُس وقت تک پہلے سے طے شدہ مردم شماری کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرسکتی جب تک جنرل ہیڈ کوارٹرز(جی ایچ کیو) کی جانب سے 18 روزہ مہم کے لیے سیکیورٹی اور مطلوبہ انتظامات کی یقین دہانی نہیں کروا دیتی جاتی.
قومی اسمبلی کے پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ اور ریوینو رانا محمد افضال خان نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اراکین اسمبلی کی جانب سے کیے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت فوجی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہے اور بہت جلد یہ واضح ہوجائے گا کہ مذکورہ مہم پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوگی یا نہیں.
حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے ایک فیصلے کے تناظر میں رواں سال مارچ میں مردم شماری کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم اگر پارلیمانی سیکریٹری کے بیان کو اہمیت دی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مردم شماری آئندہ چند ماہ میں ہونا ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مردم شماری کیلئے نئی حکمت عملی منظور
رانا محمد افضال خان کے مطابق 'جہاں تک سویلین حصے کا تعلق ہے مردم شماری کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں لیکن ملک کے مختلف علاقوں کی سیکیورٹی صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ کام فوج کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا.'
سیکریٹری کا کہنا تھا کہ اگر سیکیورٹی حکام مطلوبہ تعداد میں اہلکار فراہم کرنے کی یقین دہانی کروادیں تو مردم شماری اپریل یا مئی میں ہوجائے گی۔
مردم شماری کے لیے مطلوبہ سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد بتائے بغیر ان کا کہنا تھا کہ پورے ملک کو 166،800 مردم شماری بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے علاوہ مہم کی تکمیل کے لیے ہر بلاک میں ایک سپاہی اور ایک سول اہلکار کی ضرورت ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں نے نشاہندہی کی ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ فوج پہلے ہی سے سرحدوں اور ملک کے اندرونی سیکیورٹی معاملات کو دیکھ رہی ہے تو ایسے میں اس قدر بڑی تعداد میں فوجی جوانوں کی فراہمی مشکل ہوجائے گی.
دیگر انتظامات کے حوالے سے پارلیمانی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ صوبائی مردم شماری کمشنرز اور ماسٹر ٹرینرز کی تعیناتی، نیشنل سینٹرل ڈیٹا سینٹر کا قیام اور تربیتی کتابچوں کی تشکیل کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: مارچ میں مردم شماری فوج کی سیکیورٹی سے مشروط
ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے پارلیمانی سیکریٹری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے اعلان کیا تھا کہ مردم شماری رواں سال مارچ میں کی جائے گی لیکن اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ یہ مہم اپریل یا مئی میں منعقد کی جائےگی۔
اس کے جواب میں سیکریٹری نے اپنے گزشتہ مؤقف کو دہرایا اور کہا کہ فوج کی مدد کے بغیر حکومت مردم شماری نہیں کرواسکتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ مذکورہ مہم کی تکمیل کے لیے فوج کی مدد انتہائی ضروری ہے اور یہ کہ ملک کو اس وقت انتہائی نازک سیکیورٹی صورت حال کا سامنا ہے۔
ایم کیو ایم کے ایک رکن قومی اسمبلی عبدالوسیم نے غیرمصدقہ اطلاعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ حلقے پہلے ہی سے مردم شماری کے نتائج میں مداخلت میں مصروف ہوگئے ہیں۔
جس پر سیکریٹری کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ایسے سازشی نظریات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے اور یہی ایک وجہ ہے جس کے باعث حکومت فوج کو اس مہم کا حصہ بنانا چاہتی ہے'۔
بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں مردم شماری کروانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں رانا محمد افضال خان کا کہنا تھا کہ سب مسائل کے باوجود بلوچستان نے سب سے پہلے ملک میں بلدیاتی انتخابات کروائے اور 'مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ قومی ذمہ داری میں بھی ایسا ہی کریں گے'۔
ایم کیو ایم کی فوزیہ حمید نے سوال کیا کہ آیا 2011 کی مردم شماری کے لیے، جو بعد میں تکنیکی وجوہات کی بنا پر منسوخ کردی گئی تھی، ناقص ہاؤسنگ بلاکس کے ذمہ داروں اور مردم شماری سے قبل ہی خزانے کو 3 ارب روپے کا نقصان پہنچانے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: مردم شماری: غیر ملکیوں کا اندراج روکنا مشکل
جس کے جواب میں پارلیمانی سیکریٹری نے تفصیلی جواب دیا اور کہا کہ 'سی سی آئی نے تازہ مردم شماری کا فیصلہ کیا ہے'۔
فوزیہ حمید نے مردم شماری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی حلقوں کی حد بندی، قومی مالیاتی کمیشن کے تحت قومی وسائل کی تقسیم اور کوٹے کی الاٹمنٹ کے لیے مردم شماری ضروری ہے۔
خیال رہے کہ ملک میں آخری بار مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔
یہ خبر 20 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔