2015 میں تلواریں افراتفری سے گھر چکی ہیں۔ ان یادگاروں کو پختہ چوراہوں پر تعمیر کیا گیا، اور اس کے بعد ان کے گرد نفاست سے کٹے ہوئے سبزے، پھولوں اور کھجور کے درختوں کو لگا کر خوبصورتی میں اضافہ کیا گیا۔ 1974 میں دو تلوار پر ایک فوارہ بھی لگایا گیا تھا۔
1970 کی دہائی میں جس سڑک پر یہ یادگاریں تعمیر کی گئیں تھیں، اس کو شہر کی سب سے زیادہ خوبصورت شارع سمجھا جاتا تھا۔ یہ کشادہ تھا، یہاں ٹریفک بھی کم چلا کرتی تھی، دونوں اطراف کھجور کے درخت اور 1947 میں قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں اور پارسی تاجروں کے تعمیر شدہ وسیع و عریض بنگلے تھے۔
سڑک سیدھی بھٹو کے گھر کی جانب جاتی تھی جو کلفٹن کے ساحل کے نزدیک واقع اس وقت کے مشہور تفریحی مقامات اولڈ کلفٹن اور نیو کلفٹن سے زیادہ دور نہیں تھا۔
اس علاقے میں کمرشلائیزیشن کے پہلے آثار اس وقت دکھائی دیے جب 1970 کی دہائی کے اواخر میں یونائیٹڈ بینک آف پاکستان (یو بی ایل) کی ایک برانچ تین تلوار سے کچھ کلومیٹر دور کھلی۔ برانچ کی عمارت کا ڈیزائن انوکھے طرز کا تھا اور کئی ٹی وی ڈراموں میں دکھائے گئے آفس مناظر یہاں پر فلمبند ہوتے تھے۔
1979 میں سڑک کے دونوں طرف دو شاپنگ سینٹر تعمیر ہوئے۔ یہ عظمیٰ پلازہ اور کہکشاں سینٹر تھے جو آج کے شاپنگ مالز کے سابقین تھے۔
1981 میں ان تلواروں کو پہلی بار نقصان پہنچایا گیا۔ ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ نقصان پہنچانے والے بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی کارکنان تھے۔ فوج نے 1977 میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ 1981 میں تین تلوار کے نچلے حصے پر فوجی حکومت کے خلاف وال چاکنگ کی گئی۔
1980 کی دہائی تک ٹریفک دگنی ہوچکی تھی۔ افغانستان میں سوویت مخالف بغاوت کے دوران امریکی اور سعودی امداد کی وافر امداد اور بھٹو دور کی مخلوط معیشت کے تیزی سے خاتمے کی وجہ سے ’نو دولتیے’ طبقے نے جنم لیا، اور اس طبقے کے بہت سے لوگ کلفٹن میں منتقل ہونا شروع ہوئے۔
1990 کی دہائی تک کلفٹن روڈ بالکل تبدیل ہوچکا تھا۔ یہ جگہ گنجان آباد ہو چکی تھی؛ فلیٹس، شاپنگ سینٹرز اور اشتہاری ہورڈنگز کے لیے زیادہ جگہ بنانے کی خاطر درختوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ اب دونوں یادگاروں پر دھوئیں اور دھول کے داغ نظر آنے لگے تھے۔
ان کے گرد سبزہ تب تک خشک ہوچکا تھا اور کھجور کے درخت غائب ہوگئے تھے۔ یہ زیادہ تر ایک دہائی تک ریاست اور کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان جاری پر تشدد کشمکش کے دوران ہوا۔
پھر یہ تلواریں مختلف سیاسی جماعتوں اور مخفی مذہبی گروہوں (جو 1980 کی دہائی میں وجود میں آئے) کے پوسٹرز اور وال چاکنگ سے ڈھک گئیں۔
کلفٹن روڈ کی ٹریفک صورتحال اتنی خراب ہوچکی تھی کہ دونوں چوراہوں کا سائز کافی حد تک کم ہوگیا اور تین تلوار کے چاروں طرف ٹریفک سگنل نصب کیے گئے۔
2000 میں تین تلوار پر پہلے سے موجود انتشار انگیز اور بدذوق وال چاکنگ کے ساتھ کچھ مذہبی جملے اتحاد، تنظیم، یقین کے دھندلاتے الفاظ کے اوپر پینٹ کردیے گئے۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق تین تلواروں پر مذہبی جملے کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے حکم پر لکھے گئے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح لوگوں کو تلواریں خراب کرنے سے روکا جاسکے گا۔
مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ مختلف انتہاپسند فرقہ وارانہ گروہوں کی وال چاکنگ تین تلوار پر ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔
2005 میں (پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں) کراچی نے ایم کیو ایم کا نامزد کردہ میئر منتخب کیا۔ تقریباً دو دہائیوں بعد آخرکار تلواروں کی از سر نو تزین و آرائش کی گئی۔ وال چاکنگ کو مٹایا گیا اور پوسٹرز کو ہٹا دیا گیا، تلواروں کو دھویا گیا اور قائدِ اعظم کے الفاظ پر دوبارہ رنگ کیا گیا۔ مگر دونوں چوراہے مزید مختصر کر دیے گئے، نیا سبزہ بچھایا گیا اور پھول لگائے گئے۔
میئر کو ایک اور خیال آیا کہ کیوں نہ چوراہوں کی خوبصورتی کا کام نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے؟ انہوں نے چوارہوں کو خوبصورت بنانے کے لیے مشہور ڈزائینرز اور نجی بینکوں کی حوصلہ افزائی کی جس کے بدلے میں انہیں تلواروں کے گرد اپنی کمپنیوں کے لوگو لگانے کی اجازت دی گئی۔
یہ منصوبہ کارآمد ثابت ہوا۔ لیکن جہاں دو تلواریں تجدید کے بعد نکھر گئی ہیں، تو وہیں تین تلواریں بڑھتی ہوئی ٹریفک، آلودگی اور اپنی بگڑتی ہوئی صورت کے چیلینجز کا سامنا کرتی آئی ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ مشہور چوراہا سیاسی جماعتوں کے لیے جلسے منعقد کرنے کے لیے ایک پسندیدہ جگہ بن چکا ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے شہر کے لبرل اور سول سوسائٹی حلقوں کی یہ پسندیدہ جگہ ہے۔ یہ عمران خان کی پی ٹی آئی کا بھی ریلی پوائنٹ ہے۔ اسی جگہ پر پی ٹی آئی کی ریلی کے دوران ایم کیو ایم کے سربراہ نے (ریلی میں ایم کیو ایم مخالف بیان بازی پر برہم ہو کر) پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف یہی تلواریں استعمال کرنے کی بات کی تھی۔ اس بیان پر ایک شدید رد عمل بھی سامنے آیا تھا۔
ٹریفک کے بڑھتے دباؤ کے پیش نظر شہر کے اربابِ اختیار نے تلواروں کو ہٹانے کا بھی سوچا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اگر اپنے ابتدائی خیال پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی نشانی کے طور پر تعمیر کرواتے، تو یہ تلواریں یقیناً یہاں سے ہٹا دی گئی ہوتیں، مگر چونکہ یہ جناح کے ’طاقت کے ستون’ کے طور پر تعمیر کروائی گئیں، اس لیے اب تک اپنے اطراف میں افراتفری کے درمیان اب بھی کھڑی ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 24 جنوری 2016 کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں۔