تلوار کہانی

03 مارچ 2016
پرسکون تین تلوار 1974 میں۔
پرسکون تین تلوار 1974 میں۔

سندھ کے وسیع وعریض دارالخلافہ کراچی میں دو مشہور یادگاریں، دو تلوار اور تین تلوار ہیں۔ ماربل سے بنی ہوئی یہ تلواریں کلفٹن روڈ کے دو اہم چوراہوں پر تنی ہوئی ہیں۔

1973 میں تعمیر ہونے والی ان یادگاروں کے منصوبے کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں منظور کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ مہنگا اور پوش رہا ہے۔ آج تو یہ علاقہ گنجان آباد ہے اور بھیڑ بھاڑ دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے بالکل برعکس جب یہ تلواریں کھڑی کی جارہی تھیں اس وقت یہاں بہت کم آبادی ہوا کرتی تھی۔

ان تلواروں کی تعمیر بھٹو کے دور حکومت میں کراچی کے لیے شروع ہونے والے ’بیوٹیفیکشن’ منصوبے کا حصہ تھیں۔ اس منصوبے میں کراچی ایئرپورٹ سے اولڈ کلفٹن تک تین لینوں پر مشتمل 40 کلومیٹر سڑک کی تعمیر بھی شامل تھی۔

اس منصوبے میں دو رویہ سڑک کو چلنے کے راستوں سے تقسیم کر کے اور ان پر پودے اور درخت لگانا، اس کے ساتھ سبزے اور کھجور کے درختوں سے گھرے ہوئے چوراہے بنانا بھی شامل تھا۔ یہ منصوبہ 1974 کے آخر میں مکمل ہوا تھا لیکن تلواریں ایک سال پہلے ہی میان سے نکل چکی تھیں۔

مگر آخر تلواریں ہی کیوں؟ وہ اس لیے کہ بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار تھا، اس لیے ان یادگاروں کو حقیقتاً بھٹو کی قائم ہونے والی حکومت کی علامت کے طور پر تصور کیا گیا تھا۔

خیال یہ تھا کہ تلواریں تعمیر کرنے کے بعد ان پر پیپلز پارٹی کے پرچم کے سرخ، سیاہ اور سبز رنگوں سے رنگ کر کے ان پر ان وقتوں میں پارٹی کے تین بنیادی نعروں اسلام، جمہوریت اور سوشلزم کو کندہ کیا جائے گا۔

تلواروں کے ڈیزائن اور تعمیر کا منصوبہ مشہور پاکستانی آرکیٹیکٹ مینو مستری (جو پارسی تھے) کو دیا گیا تھا۔ مگر تلواروں کی نصف تعمیر ہوجانے کے بعد بھٹو نے یادگاروں کے مقصد میں تبدیلی لاتے ہوئے آرکیٹیکٹ کو تین تلوار پر بانیء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا مشہور قول کندہ کروانے کا کہا۔ دو تلوار (جو کہ تقریباً آدھا میل دور ہیں) پر کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔ دونوں یادگاروں کو 'طاقت کے ستون' کا نام دیا گیا۔

اس لیے جب 1973 میں ان تلواروں کی تعمیر مکمل ہوئی تو ان پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کے قول کے الفاظ اتحاد، تنظیم اور یقین کندہ کردیے گئے۔

2015 میں تلواریں افراتفری سے گھر چکی ہیں۔
2015 میں تلواریں افراتفری سے گھر چکی ہیں۔

ان یادگاروں کو پختہ چوراہوں پر تعمیر کیا گیا، اور اس کے بعد ان کے گرد نفاست سے کٹے ہوئے سبزے، پھولوں اور کھجور کے درختوں کو لگا کر خوبصورتی میں اضافہ کیا گیا۔ 1974 میں دو تلوار پر ایک فوارہ بھی لگایا گیا تھا۔

1970 کی دہائی میں جس سڑک پر یہ یادگاریں تعمیر کی گئیں تھیں، اس کو شہر کی سب سے زیادہ خوبصورت شارع سمجھا جاتا تھا۔ یہ کشادہ تھا، یہاں ٹریفک بھی کم چلا کرتی تھی، دونوں اطراف کھجور کے درخت اور 1947 میں قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں اور پارسی تاجروں کے تعمیر شدہ وسیع و عریض بنگلے تھے۔

سڑک سیدھی بھٹو کے گھر کی جانب جاتی تھی جو کلفٹن کے ساحل کے نزدیک واقع اس وقت کے مشہور تفریحی مقامات اولڈ کلفٹن اور نیو کلفٹن سے زیادہ دور نہیں تھا۔

اس علاقے میں کمرشلائیزیشن کے پہلے آثار اس وقت دکھائی دیے جب 1970 کی دہائی کے اواخر میں یونائیٹڈ بینک آف پاکستان (یو بی ایل) کی ایک برانچ تین تلوار سے کچھ کلومیٹر دور کھلی۔ برانچ کی عمارت کا ڈیزائن انوکھے طرز کا تھا اور کئی ٹی وی ڈراموں میں دکھائے گئے آفس مناظر یہاں پر فلمبند ہوتے تھے۔

1979 میں سڑک کے دونوں طرف دو شاپنگ سینٹر تعمیر ہوئے۔ یہ عظمیٰ پلازہ اور کہکشاں سینٹر تھے جو آج کے شاپنگ مالز کے سابقین تھے۔

1981 میں ان تلواروں کو پہلی بار نقصان پہنچایا گیا۔ ستم ظریفی کی بات یہ تھی کہ نقصان پہنچانے والے بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی کارکنان تھے۔ فوج نے 1977 میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ 1981 میں تین تلوار کے نچلے حصے پر فوجی حکومت کے خلاف وال چاکنگ کی گئی۔

1980 کی دہائی تک ٹریفک دگنی ہوچکی تھی۔ افغانستان میں سوویت مخالف بغاوت کے دوران امریکی اور سعودی امداد کی وافر امداد اور بھٹو دور کی مخلوط معیشت کے تیزی سے خاتمے کی وجہ سے ’نو دولتیے’ طبقے نے جنم لیا، اور اس طبقے کے بہت سے لوگ کلفٹن میں منتقل ہونا شروع ہوئے۔

1990 کی دہائی تک کلفٹن روڈ بالکل تبدیل ہوچکا تھا۔ یہ جگہ گنجان آباد ہو چکی تھی؛ فلیٹس، شاپنگ سینٹرز اور اشتہاری ہورڈنگز کے لیے زیادہ جگہ بنانے کی خاطر درختوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ اب دونوں یادگاروں پر دھوئیں اور دھول کے داغ نظر آنے لگے تھے۔

ان کے گرد سبزہ تب تک خشک ہوچکا تھا اور کھجور کے درخت غائب ہوگئے تھے۔ یہ زیادہ تر ایک دہائی تک ریاست اور کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان جاری پر تشدد کشمکش کے دوران ہوا۔

پھر یہ تلواریں مختلف سیاسی جماعتوں اور مخفی مذہبی گروہوں (جو 1980 کی دہائی میں وجود میں آئے) کے پوسٹرز اور وال چاکنگ سے ڈھک گئیں۔

کلفٹن روڈ کی ٹریفک صورتحال اتنی خراب ہوچکی تھی کہ دونوں چوراہوں کا سائز کافی حد تک کم ہوگیا اور تین تلوار کے چاروں طرف ٹریفک سگنل نصب کیے گئے۔

2000 میں تین تلوار پر پہلے سے موجود انتشار انگیز اور بدذوق وال چاکنگ کے ساتھ کچھ مذہبی جملے اتحاد، تنظیم، یقین کے دھندلاتے الفاظ کے اوپر پینٹ کردیے گئے۔

کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق تین تلواروں پر مذہبی جملے کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے حکم پر لکھے گئے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح لوگوں کو تلواریں خراب کرنے سے روکا جاسکے گا۔

مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ مختلف انتہاپسند فرقہ وارانہ گروہوں کی وال چاکنگ تین تلوار پر ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔

2005 میں (پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں) کراچی نے ایم کیو ایم کا نامزد کردہ میئر منتخب کیا۔ تقریباً دو دہائیوں بعد آخرکار تلواروں کی از سر نو تزین و آرائش کی گئی۔ وال چاکنگ کو مٹایا گیا اور پوسٹرز کو ہٹا دیا گیا، تلواروں کو دھویا گیا اور قائدِ اعظم کے الفاظ پر دوبارہ رنگ کیا گیا۔ مگر دونوں چوراہے مزید مختصر کر دیے گئے، نیا سبزہ بچھایا گیا اور پھول لگائے گئے۔

میئر کو ایک اور خیال آیا کہ کیوں نہ چوراہوں کی خوبصورتی کا کام نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے؟ انہوں نے چوارہوں کو خوبصورت بنانے کے لیے مشہور ڈزائینرز اور نجی بینکوں کی حوصلہ افزائی کی جس کے بدلے میں انہیں تلواروں کے گرد اپنی کمپنیوں کے لوگو لگانے کی اجازت دی گئی۔

یہ منصوبہ کارآمد ثابت ہوا۔ لیکن جہاں دو تلواریں تجدید کے بعد نکھر گئی ہیں، تو وہیں تین تلواریں بڑھتی ہوئی ٹریفک، آلودگی اور اپنی بگڑتی ہوئی صورت کے چیلینجز کا سامنا کرتی آئی ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ مشہور چوراہا سیاسی جماعتوں کے لیے جلسے منعقد کرنے کے لیے ایک پسندیدہ جگہ بن چکا ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے شہر کے لبرل اور سول سوسائٹی حلقوں کی یہ پسندیدہ جگہ ہے۔ یہ عمران خان کی پی ٹی آئی کا بھی ریلی پوائنٹ ہے۔ اسی جگہ پر پی ٹی آئی کی ریلی کے دوران ایم کیو ایم کے سربراہ نے (ریلی میں ایم کیو ایم مخالف بیان بازی پر برہم ہو کر) پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف یہی تلواریں استعمال کرنے کی بات کی تھی۔ اس بیان پر ایک شدید رد عمل بھی سامنے آیا تھا۔

ٹریفک کے بڑھتے دباؤ کے پیش نظر شہر کے اربابِ اختیار نے تلواروں کو ہٹانے کا بھی سوچا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اگر اپنے ابتدائی خیال پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی نشانی کے طور پر تعمیر کرواتے، تو یہ تلواریں یقیناً یہاں سے ہٹا دی گئی ہوتیں، مگر چونکہ یہ جناح کے ’طاقت کے ستون’ کے طور پر تعمیر کروائی گئیں، اس لیے اب تک اپنے اطراف میں افراتفری کے درمیان اب بھی کھڑی ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 24 جنوری 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Munfarid Mar 04, 2016 10:43am
PPP ka intekhabi nishan *Teer* hy talwar nahi . Balkul wrong statement hy is blog main.
Muhammad Iqbal Mar 04, 2016 01:52pm
for kind your information, Bhutto sahab ka nishan TALWAAR tha.
LIBRA Mar 04, 2016 02:55pm
@Munfarid pls vaerify before comentinfg on social media ... it definitely was sword in beginning