اپنے پرندوں کی منتظر ہالیجی جھیل
اپنے پرندوں کی منتظر ہالیجی جھیل
کراچی سے ٹھٹھہ جاتے ہوئے گھارو سے آگے شمال کی طرف ایک سڑک نکلتی ہے۔ اس پر آپ اگر چلے جائیں تو راستے کے کنارے گھاس پھوس کی جھونپڑیاں آپ کو دیکھنے کے لیے مل جائیں گی، اور ان جھونپڑیوں کے کچے آنگنوں میں آپ کو عورتیں کام کرتے ہوئے بھی نظر آجائیں گی۔
میں کیونکہ صبح کے دس بجے اس سڑک پر سے ہچکولے کھاتے گزر رہا تھا تو عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں اور آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ باتیں کیا ہوں گی شب و روز کے ملے درد ہوں گے جو آپس میں بانٹ رہی ہوں گی۔ شاید اس لیے کہ درد بانٹنے سے کم ہوتے ہیں۔
راستے کے دونوں طرف کوئی ہریالی نہیں تھی، بس شوریدہ بے رنگ زمین تھی جو دور تک بچھی ہوئی تھی۔ گاڑی چلتی کم اور ہچکولے زیادہ کھاتی۔ پھر سامنے ایک پُل نظر آیا اور پُل سے پہلے ایک آدمی نظر آیا جس نے ہمیں رُکنے کا اشارہ کیا۔
ہم نے اسے ہماری منزل کے بارے میں بتایا تو اُس نے کہا کہ "یہ سامنے جو پُل نظر آ رہا ہے، اُس پر سے مت جائیے گا۔"
"کیوں بھائی۔ کیوں نہ جائیں پُل سے؟"
"اسلئے نہ جائیں کہ پُل ٹوٹا ہوا ہے۔"
"اس ندی کا کیا نام ہے جس پر یہ اتنا بڑا اور ناکارہ پُل بنا ہوا ہے۔؟"
"نہیں یہ ندی نہیں ہے، سیم نالہ ہے آر۔بی۔او۔ڈی کا، پتہ نہیں کہیں دُور سے بہتا ہوا آتا ہے،" اُس نے شمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور سڑک سے نیچے اُتر گئے۔
نالے سے ہلکا زرد پانی بڑی سست رفتاری سے مغرب کی طرف سمندر کی جانب سفر کر رہا تھا، لیکن ہم شمال کی طرف چل پڑے۔ مچھیروں کی کچھ کچی بستیاں تھیں جو راستے کے دونوں کناروں پر تھیں اور بچے گاؤں کے آنگن میں کھیلتے۔ پھر اچانک درخت گھنے ہونے لگے اور ایک انتباہی بورڈ کے ساتھ سڑک کو بانس کے لکڑے سے بند کر کے رکھا تھا۔
ہم نے تعارف کروایا اور راستہ کھول دیا گیا۔ آدھے کلومیٹر کے فاصلے کے بعد آپ جیسے ایک ہلکی چڑھائی سی چڑھتے ہیں تو سامنے 'ہالیجی جھیل' ہے جو کسی بے رنگ تصویر کی طرح پھیکی پھیکی اور خاموش سی نظر آتی ہے۔