میٹھے زہر کے لیے ہمارا نرم گوشہ
پیپسی کے ساتھ میرا جذباتی تعلق بچپن ہی سے جڑ گیا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ میرے پسندیدہ عمران خان، وسیم اکرم اور جنید جمشید کا اسے پیتے اور اس کی تائید کرتے دکھائی دینا تھا۔
بچپن میں میں سافٹ ڈرنکس کے سنگین اثرات سے انجان تھا، اور مقامی ٹینس مقابلوں میں ڈرنک کے لیے پیپسی کا انتخاب کرتا۔
90 کی دہائی میں جب پیپسی اور کوکا کولا کے درمیان جنگ شدت اختیار کر گئی تو اس نے قدرتی طور پر کوک کے لیے میری ناپسندیدگی بھی بڑھائی۔
جب 1996 میں ورلڈ کپ پاکستان میں منعقد ہوا تو کوکا کولا کو اس کا آفیشل اسپانسر بننے کا سن کر میں کافی مایوس ہوا تاہم پیپسی نیا نعرہ ''اس کے بارے میں کچھ بھی آفیشل نہیں'' میدان میں لے آئی۔ کوکا کولا کے خلاف پیپسی کے اس ردِ عمل سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔
جذبات کا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر اوقات انسان کے احساسات اپنی پسند کی چیز سے اس حد تک جڑ جاتے ہیں، کہ سوچ بچار کی صلاحیت بالکل ختم ہی ہوجاتی ہے۔
کالج میں جب کینٹین پر پیپسی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کوک پی تو میری زبان نے میرے دماغ کو بتایا کہ کوک کا ذائقہ پیپسی سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنے پسندیدہ برانڈ کو نہیں چھوڑا جو مجھے معدے کی گہرائیوں سے پسند تھی۔
میرے اس بچکانہ تعصب کو ختم ہونے میں کچھ سال لگ گئے اور میں بغیر شرمندگی کوک پینے لگا، اور چند سالوں بعد میں نے بہتر صحت کی غرض سے سافٹ ڈرنکس کو بالکل ہی خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔
بلاشبہ یہ ایک بہت زبردست فیصلہ تھا۔
سافٹ ڈرنکس صنعت کے فنڈز کے بغیر ہونے ہونے والی کئی تحقیقیں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ ان میٹھی ڈرنکس اور کئی بیماریوں، بشمول ذیابیطس اور دل کے امراض، کے درمیان براہِ راست تعلق ہے۔
انتہائی غیر ذمہ داری
سافٹ ڈرنکس کو لت آور اور مضر تصور کرتے ہوئے آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ سوڈا برانڈز محتاط مارکیٹنگ کرتی ہوں گی۔
مگر کوکا کولا، پیپسی اور اسپرائیٹ کی حالیہ تشہیری مہم میں بہت بے تکے خیالات کو پیش کیا جا رہا ہے جیسے آپ کے پسندیدہ سوڈا کو پیے بغیر کھانا مکمل نہیں ہوتا۔ ان اشتہاری مہمات سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں اخلاقیات کی کوئی فکر نہیں، اور نہ ہی صارفین کی جانب اپنی ذمہ داری کا کوئی احساس ہے۔
پڑھیے: سافٹ ڈرنکس سے بچوں میں ڈپریشن اور تشدد
مختلف سوڈا برانڈ کے فیس بک پیجز پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی استعمال کردہ اشتہاری حکمت عملیوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
مثلاً کوکا کولا برانڈ کثرتِ استعمال سے ہونے والے نقصاندہ اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے جارحانہ طور پر اپنی ڈرنک روزانہ پینے کا مشورہ دے رہی ہے۔ (پیپسی اور اسپرائیٹ بھی روزانہ پینے کا مشورہ دینے میں تھوڑے محتاط ہیں۔)
ان برانڈز کی سنگ دلی اس حقیقت سے ہی واضح ہوجاتی ہے کہ فیس بک کا استعمال 13 سال کے کم عمر بچے بھی کرتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ بچوں کو مارکیٹنگ میں ایسے جملے، جیسے کہ کوک گھرانوں اور دوستوں کے درمیان کھانے کے دوران ''خوشیاں'' باٹنے کا ذریعہ ہے، استعمال کر کے شامل کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اور کوئی آخر کیوں اپنے بچوں کو یہ میٹھے محلول پیتے دیکھ کر ناخوش ہوگا؟