Dawn News Television

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2016 03:31pm

میٹھے زہر کے لیے ہمارا نرم گوشہ

پیپسی کے ساتھ میرا جذباتی تعلق بچپن ہی سے جڑ گیا تھا، جس کی ایک بڑی وجہ میرے پسندیدہ عمران خان، وسیم اکرم اور جنید جمشید کا اسے پیتے اور اس کی تائید کرتے دکھائی دینا تھا۔

بچپن میں میں سافٹ ڈرنکس کے سنگین اثرات سے انجان تھا، اور مقامی ٹینس مقابلوں میں ڈرنک کے لیے پیپسی کا انتخاب کرتا۔

90 کی دہائی میں جب پیپسی اور کوکا کولا کے درمیان جنگ شدت اختیار کر گئی تو اس نے قدرتی طور پر کوک کے لیے میری ناپسندیدگی بھی بڑھائی۔

جب 1996 میں ورلڈ کپ پاکستان میں منعقد ہوا تو کوکا کولا کو اس کا آفیشل اسپانسر بننے کا سن کر میں کافی مایوس ہوا تاہم پیپسی نیا نعرہ ''اس کے بارے میں کچھ بھی آفیشل نہیں'' میدان میں لے آئی۔ کوکا کولا کے خلاف پیپسی کے اس ردِ عمل سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔

جذبات کا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر اوقات انسان کے احساسات اپنی پسند کی چیز سے اس حد تک جڑ جاتے ہیں، کہ سوچ بچار کی صلاحیت بالکل ختم ہی ہوجاتی ہے۔

کالج میں جب کینٹین پر پیپسی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کوک پی تو میری زبان نے میرے دماغ کو بتایا کہ کوک کا ذائقہ پیپسی سے کہیں بہتر ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنے پسندیدہ برانڈ کو نہیں چھوڑا جو مجھے معدے کی گہرائیوں سے پسند تھی۔

میرے اس بچکانہ تعصب کو ختم ہونے میں کچھ سال لگ گئے اور میں بغیر شرمندگی کوک پینے لگا، اور چند سالوں بعد میں نے بہتر صحت کی غرض سے سافٹ ڈرنکس کو بالکل ہی خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا۔

بلاشبہ یہ ایک بہت زبردست فیصلہ تھا۔

سافٹ ڈرنکس صنعت کے فنڈز کے بغیر ہونے ہونے والی کئی تحقیقیں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ ان میٹھی ڈرنکس اور کئی بیماریوں، بشمول ذیابیطس اور دل کے امراض، کے درمیان براہِ راست تعلق ہے۔

انتہائی غیر ذمہ داری

سافٹ ڈرنکس کو لت آور اور مضر تصور کرتے ہوئے آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ سوڈا برانڈز محتاط مارکیٹنگ کرتی ہوں گی۔

مگر کوکا کولا، پیپسی اور اسپرائیٹ کی حالیہ تشہیری مہم میں بہت بے تکے خیالات کو پیش کیا جا رہا ہے جیسے آپ کے پسندیدہ سوڈا کو پیے بغیر کھانا مکمل نہیں ہوتا۔ ان اشتہاری مہمات سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں اخلاقیات کی کوئی فکر نہیں، اور نہ ہی صارفین کی جانب اپنی ذمہ داری کا کوئی احساس ہے۔

پڑھیے: سافٹ ڈرنکس سے بچوں میں ڈپریشن اور تشدد

مختلف سوڈا برانڈ کے فیس بک پیجز پر سرسری نظر ڈالنے سے ان کی استعمال کردہ اشتہاری حکمت عملیوں کا انکشاف ہوتا ہے۔

مثلاً کوکا کولا برانڈ کثرتِ استعمال سے ہونے والے نقصاندہ اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے جارحانہ طور پر اپنی ڈرنک روزانہ پینے کا مشورہ دے رہی ہے۔ (پیپسی اور اسپرائیٹ بھی روزانہ پینے کا مشورہ دینے میں تھوڑے محتاط ہیں۔)

ان برانڈز کی سنگ دلی اس حقیقت سے ہی واضح ہوجاتی ہے کہ فیس بک کا استعمال 13 سال کے کم عمر بچے بھی کرتے ہیں۔

یوں لگتا ہے کہ بچوں کو مارکیٹنگ میں ایسے جملے، جیسے کہ کوک گھرانوں اور دوستوں کے درمیان کھانے کے دوران ''خوشیاں'' باٹنے کا ذریعہ ہے، استعمال کر کے شامل کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اور کوئی آخر کیوں اپنے بچوں کو یہ میٹھے محلول پیتے دیکھ کر ناخوش ہوگا؟

ایک پوسٹ پر ایک بچی جو کہ ایک کالج کی طالبہ لگتی ہے وہ اپنے دوست کو اپنے مسئلے کے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ خود کو کوک کی طلب سے نہیں نکال پا رہیں۔ جس کے جواب میں اس کا دوست مزاحیہ انداز میں جواب دیتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اسے خراب صحت کو بھی برداشت کرنا ہوگا۔

اتنے میں کوک بھی پوسٹ میں کود پڑی اور لکھا کہ کوک کی طلب کی مزاحمت نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ اربوں کا منافع کمانے والے برانڈ کو بھلا صارفین کی صحت سے کیا سروکار ہوگا؟

کولا برانڈ کی سوشل میڈیا پر مارکیٹنگ صرف اپنے فالوورز کو پینے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ کام مختلف اقسام کی لاتعداد پوسٹس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

ان کی فیس بک پر سلیبریٹیز اور فلم اسٹارز کے گلیمر سے بھرپور بے شمار شاٹس موجود ہوتے ہیں جن میں یہ برانڈ کی تشہیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی بھڑکیلی ویڈیوز جن میں کالج کے طلبہ اپنی نوجوانی کا مزہ لیتے ہوئے شوق سے سوڈا سے محظوظ ہو رہے ہیں، بے تحاشہ نمائشی تصاویر اور ان کے برانڈز کے پوسٹرز سب مل کر اپنے خیالات اور تجربات کو 'شیئر' کرنے کی دعوت دیتے ہیں، جن میں سے کچھ کا جواب کبھی کبھار ان برانڈز کے سوشل میڈیا مینیجر دیتے بھی ہیں۔

یہ برانڈز خود کو ذمہ دار کارپوریشن ظاہر کرنے کی پوری کوشش کرتی ہیں، کیونکہ اگر آپ کے پسندیدہ سافٹ ڈرنک کمپنی صارف کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہ رکھے، تو ایسی کمپنی کس کام کی؟

مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ برانڈز اپنے لاعلم صارفین کو آگاہ کرنے کی اپنی ذمہ داری سے مبراء ہیں، بھلے ہی وہ صارفین تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں، جیسا کہ وہ لڑکی جس نے فخریہ اعلان کیا کہ وہ سوڈا کی عادی بن چکی ہے۔

ایسے تبصرے کرنے والے جذباتی صارفین، جن میں سے زیادہ تر ٹین ایج میں ہوتے ہیں، سے اگر دوسرے لوگ ان ڈرنکس کے صحت پر منفی اثرات کے بارے میں سوال کریں، تو زیادہ تر لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔

پڑھیے: چینی کے زیادہ استعمال کے 10 مضر اثرات

ایسے ہی ایک شخص سے جب پوچھا گیا کہ کیا اسے ان ڈرنکس سے ذیابیطس کے خطرے کا علم ہے، تو اس کا جواب تھا کہ "آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو چرس پیتے ہیں مگر تاخیر سے مرتے ہیں۔ کوک میں ایسی چیزیں ہو سکتی ہیں مگر ان لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے بڑھاپے میں بھی سگریٹ پیتے ہیں اور انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی؟"

ایک اور لڑکی، جو روز دو سے تین سوڈا پینے کا دعویٰ کرتی ہے، جب اس سے سافٹ ڈرنکس اور قبل از وقت بڑھاپے کے بارے میں سوال کیا گیا، تو اسے اس بارے میں ذرا بھی معلومات نہیں تھیں۔

سوشل میڈیا مینیجرز، جو فالوورز کے مثبت اور تعریفی تبصروں کو خوشی خوشی لائیک پر لائیک کیے جاتے ہیں، اس طرح کی متنازع بحثوں سے دور رہتے ہیں۔

سرکش لوگوں کی جانب سے بحث شروع کرنے کی کوئی بھی کوشش نظرانداز کر دی جاتی ہے، یا ڈھیر سارے تعریفی تبصروں کے نیچے دبا دی جاتی ہے۔

مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ ان برانڈز کے ہزاروں حقیقی فالوورز ہیں، مگر میں خود پبلک ریلیشنز میں کام کر چکا ہوں، اس لیے جانتا ہوں کہ تمام تبصرے حقیقی نہیں ہوتے، بلکہ برانڈز یا ان کے مارکیٹنگ ادارے اپنے اپنے حلقوں میں موجود لوگوں کی برانڈ کا تاثر بہتر بنانے کے لیے ایسے تبصرے کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔

جانیے: کولڈ ڈرنکس کے 8 نقصانات جن کا آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا

سراب کے ذریعے منافع

میں اپنے کرکٹرز کی بہت عزت اور پذیرائی کرتا ہوں، مگر پاکستان میں سوڈا برانڈز کی مقبولیت کی وہ سب سے بڑی اور واحد وجہ ہو سکتے ہیں۔

خاص طور پر پیپسی نے کرکٹ کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کھیل کو بے پناہ اسپانسر کیا ہے، یہاں تک کہ قومی کرکٹ ٹیم سے معاہدہ بھی کیا ہے۔

بھلے ہی پیپسی کی کرکٹ مارکیٹنگ کا بنیادی مقصد اس کھیل اور اس برانڈ کے درمیان ایک مثبت تعلق بنانا ہوتا ہے، جیسا کہ حالیہ کیچ اے کروڑ اسکیم، مگر یہ کمپنی اپنی پروڈکٹ کو جسمانی کارکردگی سے جوڑنے سے بھی نہیں شرماتی۔

اشتہارات اور سوشل میڈیا ویڈیوز میں اکثر اوقات قومی کرکٹرز کو ورزش کے دوران پیپسی پیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، جیسے کہ شکر سے لدی ہوئی یہ ڈرنکس ایک سخت ورزش کے بعد مطلوب غذائیت کا بہترین سرچشمہ ہیں۔

جانیے: انرجی ڈرنکس سے دل کے دورے کا خطرہ

درحقیقت ایسے کئی ایتھلیٹس موجود ہیں جو سخت مقابلے کے دوران یا بعد کاربونیٹڈ ڈرنکس کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک کیفین اور شکر کا امتزاج وہ توانائی دے سکتا ہے جو اسپورٹس ڈرنکس میں نہیں ہوتی۔

مگر سپلیمنٹس اور قدرتی غذائیں ضروری غذائیت کی کمی پوری کر سکتی ہیں، مگر سافٹ ڈرنکس کا غذائیت کے اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، بجائے اس کے کہ ورزش کے بعد غذا میں سادہ شکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ پروفیشنل ایتھلیٹ ایک عام آدمی سے کہیں زیادہ کیلوریز کا استعمال کرتے ہیں اور اس دوران اپنے جسم سے زہریلے مادوں کا ایک عام آدمی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اخراج کرتے ہیں، اس لیے وہ ورزش یا سخت کھیل کے بعد کبھی کبھار کوکا کولا پی سکتے ہیں، اسی طرح جس طرح رافیل نڈال ایک جان توڑ میچ کے بعد نیوٹیلا کے چمچ بھر بھر کے کھا سکتے ہیں۔

مگر کم جسمانی مشقت کرنے والے یا ناتجربہ کار ایتھلیٹس کا سوڈا کی وجہ سے پیٹ بڑھ سکتا ہے یا زیادہ شکر سے سستی پیدا ہوسکتی ہے۔

مگر مارکیٹنگ کا ان سب باریکیوں سے کیا کام؟ ان کا مقصد تو صرف ایک سادہ بیانیہ تشکیل دینا ہے، اور وہ یہ کہ کرکٹ اور پیپسی جدا نہیں کیے جاسکتے، اور پیپسی کی اپنی زبان میں کہیں تو یہ MadeForEachOther# ہیں (ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں)۔

ذاتی طور پر یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ صرف دو دہائیوں قبل کچے ذہن کے بچے کس طرح مارکیٹنگ کے اس جال میں پھنس جایا کرتے تھے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

میڈیا بینک کی تحقیق کے مطابق سال 2014 میں پاکستانی ٹی وی میں مکمل اشتہارات کا 16 فیصد حصہ سافٹ ڈرنکس کے اشتہارات تھے، صرف موبائل فون کے اشتہارات سے کم۔

2013-14 میں گیلپ سروے کے مطابق ٹی وی اشتہارات پر 22.97 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے، جبکہ اس میں سافٹ ڈرنکس صنعت کا حصہ 3.6 ارب روپے تھا۔

اس میں دیگر ذرائع (بورڈز، اخبارات، پوسٹرز، ریڈیو وغیرہ) کے اشتہارات کے اخراجات یا اشتہار سازی پر آنے والے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ نہ ہی اس میں پبلک ریلیشنز یا مارکیٹنگ کی دیگر اقسام (شاپنگ مالز میں ایکٹیویٹیز وغیرہ) پر آنے والے اخراجات ہیں۔

مجموعی طور پر یہ ایسی صنعت ہے جو لاعلم اور کچے ذہن کے لوگوں کو اپنا شکار بنانے کے لیے اربوں روپے خرچ کرتی ہے۔ اور جب کہ بڑی سافٹ ڈرنکس کمپنیاں اپنے زبردست منافعوں کا مزہ لوٹتی ہیں، تو سوڈا صارفین کا موٹاپے کی عالمی وباء کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

گلوبل برڈن آف ڈزیز اسٹڈی کی تحقیق کے مطابق دنیا کی بالغ آبادی کا ایک تہائی اور بچوں کی آبادی کا ایک چوتھائی موٹاپے کا شکار ہے۔

مزید پڑھیے: گجرانوالہ کے بیل کولڈ ڈرنک کے شوقین

اس کے علاوہ دنیا کے 62 فیصد موٹے افراد ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں، جس سے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ ترقی اور دولت کی ریل پیل ہی موٹاپے کی وجہ ہے۔

اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہے کہ پاکستان موٹی ترین اقوام کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔

اس طرح کے حالات میں کیا پیپسی اور کوک کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ بچوں کو ہر کھانے کے ساتھ سوڈا پینے کی ترغیب دیں؟

اگر کٹ کیٹ یا کیڈبری روزانہ چاکلیٹ کی ایک بار کھانے کی ترغیب دینے لگیں، تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟

یا اگر مارس چاکلیٹ کو ایسی مٹھاس کے طور پر متعارف کروایا جائے جسے روز لازماً کھانا چاہیے؟

میں جانتا ہوں کہ زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ ناقابلِ قبول ہوگا اور ہم فوراً ہی چاکلیٹ میں موجود بے انتہا شکر کے نقصانات گنوا کر ان اشتہارات کی حوصلہ شکنی کریں گے۔

مگر کیا یہ ہمارا ان برانڈز کے لیے نرم گوشہ ہے جن کی ہمارے کئی قومی ہیرو تائید کر چکے ہیں؟ کیا اس نرم گوشے کی وجہ سے ہم نے پوری صنعت کو معاف کر دیا ہے؟

یا شاید ہم لوگ ان کارپوریشنز کی پاکستان میں سرمایہ کاری سے اس قدر خوش ہیں کہ اس کے بدلے ہمیں اپنے بچوں کی گرتی صحت بھی قبول ہے۔

وجہ چاہے کوئی بھی ہو، ہمیں اپنی عوامی صحت کی بہتری کے لیے بحیثیتِ معاشرہ اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔

ہم نے جب سگریٹ اور تمباکو کے اشتہارات پر پابندی لگائی، تو یہ ایک درست فیصلہ تھا۔

سافٹ ڈرنک صنعت کے ساتھ شاید ایسا نہیں ہونا چاہیے، مگر ان کی تشہیری مہم پر پابندیاں لگانے کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments