سرفراز کی قیادت میں قومی انڈر 19 ٹیم نے 2006 میں عالمی کپ جیتا۔ فوٹو بشکریہ آئی سی سی
لیکن تاریخ پاکستان کی کپتانی میں غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ بہت سارے کپتان آئے اور چلے گئے اور کچھ اسکواڈ کے اندر مخصوص گروپ کے لیے ناقابل قبول تھے جن کا اپنا مفاد تھا۔ بین الصوبائی حسد، بدقسمتی سے ہمارے کرکٹ کے نظام میں آج بھی موجود ہے۔ جب ملک کی نمائندگی کی بات آتی ہے تو اس سلسلے میں انتشار سب سے اہم نکتہ ہے۔
جاوید میانداد کا کیریئر بھی اس منصب پر ہنگامہ خیز تھا جب انھیں 1979-80 کے عبرت ناک دورے کے بعد 22 سال کی عمر میں ذمے داری سنبھالنے کو کہا گیا۔ بدقسمتی سے میانداد کو ان سینئرز کی جانب سے قومی ٹیم کے قائد کی حیثیت سے کھلے دل سے قبول نہیں کیا گیا جو خود اس عہدے کے خواہشمند تھے اس بات سے قطع نظر کہ وہ کپتانی کی فہم رکھتے تھے یا نہیں۔
آئی سی سی کے موجودہ صدر ظہیرعباس جو پاکستان کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک تھے لیکن ان میں قومی ٹیم کی قیادت جیسی صلاحیت کی کمی تھی لیکن ابھرتے ہوئی خواہشات کی وجہ سے وہ 1980 میں کچھ وقت کے لیے دفاعی ذہنیت کے ساتھ پاکستان کے کپتان کے طور پر نظر آئے۔
ظہیر عباس کی خامیوں کے برعکس یونس خان کے پاس قیادت کی خوبیاں موجود تھیں اور شعیب ملک کے ناکام تجربے کے بعد انھیں طویل عرصے کے لیے کپتان ہونا چاہیے تھا اور 2009 میں پاکستان کے واحد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل میں کپتانی کے باوجود یونس نے مختلف ذرائع کی جانب سے بڑی چاپلوسی کے بعد عہدے کی حامی بھری جنہیں صرف چند ماہ بعد پراسرار حالات میں کپتانی سے علیحدہ ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ بغاوتی گروپ نے یونس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ ان کی زیر قیادت بہتر محسوس نہیں کر رہے تھے۔
شعیب ملک نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016 کے دوران چونکا دینے والا انکشاف کیا۔ سابق کپتان کا تجزیہ تھا کہ "2009 میں انگلینڈ میں جب پاکستان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتا اس وقت ٹیم میں چھ کھلاڑیوں کے آپس میں بات چیت کا سلسلہ نہیں تھا لیکن کوئی بھی اس حوالے سے بات نہیں کرتا کیونکہ ہم اس ایونٹ میں کامیاب رہے تھے"۔
عمران خان مضبوط قائد تھے جنہیں یہاں تک کہ سلیکشن کمیٹی کے انتخاب پر اعتماد نہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم چننے کی آزادی تھی۔ انہوں نے عزت حاصل نہیں کی لیکن یہ ان کی شخصیت تھی جو انہیں اپنے کھلاڑیوں سے ممتاز کرتی تھی۔ 80 کی دہائی میں ایک دفعہ انھوں نے کراچی میں ایک میچ کے دوران کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری کو جرات مندانہ انداز میں پاکستان ٹیم کا ڈریسنگ روم چھوڑنے کا حکم دیا لیکن بطور کپتان ان کی شہرت کے باوجود عمران خان کو اپنے ساتھیوں سے ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم 1982 میں جاوید میانداد کے خلاف بدنام زمانہ بغاوت کے بعد عمران خان خودبخود کپتان بنے اور جو چاہتے تھے وہ پایا۔ حتیٰ کے ان کے کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی۔ اگر یہ نہ ہوتا تو پاکستان کبھی بھی 1992 میں ورلڈ کپ نہ جیت پاتا جب وہ گروپ کے ابتدائی میچوں میں شکستوں کے بعد تقریباً ایونٹ سے باہر ہو گئے تھے اور نتائج ان کے حق میں نہیں تھے۔
عمران خان، مشتاق محمد اور عبدالحفیظ کاردار جیسے لوگ طویل عرصے تک غیرمعمولی قائد تھے، مختلف حلقوں کی جانب سے ان کی تعریف کی گئی اور وہ پاکستان کا نام کرکٹ کی دنیا میں عظیم انداز میں روشن کرنے میں کامیاب ہوئے۔
وقت کے ساتھ ہماری روزمرہ زندگی کا معیار تیزی سے ترقی کر گیا اور عالمی طور پر کرکٹ میں بھی دوسرے کھیلوں کی طرح انقلابی آمد کے ساتھ تجربہ حاصل ہوا۔ آج کل کھلاڑیوں کے ایک اسکواڈ کے علاوہ لوگوں کا ایک اور گروہ جنھیں ہم سب معاون اسٹاف یا ٹیم انتظامیہ کے طورپر جانتے ہیں دونوں گروہ مل کر میدان میں ٹیم کی جیت کے لیے ایک مقصد کے لیے کام کرتے ہیں۔
لیکن جدید دور کی کرکٹ میں کپتان کو دیگر سے زیادہ حیثیت حاصل ہے۔ وہ زیادہ وقت اپنی نجی معاملات کی آسائش سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ ان کی کرکٹ کے حوالے سے یا دیگر اقدام پر اس دور میں خاص طور پر نظر رکھی جاتی ہے کھلاڑیوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور وہ اکثر خبروں میں ہوتے ہیں، بعض اوقات سیاست دان اور دیگر شخصیات سے بھی زیاہ انھیں جگہ ملتی ہے۔
اسپاٹ فکسنگ کے اسکینڈل کے بعد مصباح الحق کامیاب ٹیسٹ کپتان کی حیثیت ابھر کر سامنے آئے۔ مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد گھر سے دور کھیلنے کے باوجود ملک کو واقعی طورپر بہترین کرکٹر ملا جو قابل ستائش ہے۔
پاکستان ٹیم کو کئی سالوں سے قیادت کرنے والوں میں کئی زاویوں کا فرق ہے۔ ایسے بھی مواقعے آئے جب ایک ٹیم میں کھیلنے والے کھلاڑیوں میں سے پانچ یا چھ ماضی میں بین الاقوامی سطح پر کپتانی کے فرائض انجام دے چکے ہوں۔ یہ پاکستان کے عجیب نظام میں کوئی نئی چیز نہیں ہے جو موجودہ بورڈ کے چیئرمین کے مطابق تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی کے نئے کپتان کو مشکلات کے خلاف حفاظت خود ان کی اپنی کارکردگی ہے لیکن ان کھلاڑیوں سے جن کی وہ قیادت کرررہے ہیں ان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں شرمیلے کردار، سرفراز احمدذہانت اورحاضردماغی کے بات کرتے ہیں اور دباؤ اور دیگر ناسازگار حالات جو بین الاقوامی کرکٹ کا حصہ ہیں سے نمٹنے کی پراسرار صلاحیت رکھتے ہیں۔
ایک ہی وقت میں انھیں ہر صورت میں پاکستان ٹیم کے قائد کے طورپر تمام لوگوں پر اپنی حیثیت ثابت کرنی چاہیے۔ انھیں تباہی سے باہر موت کا شکار ضرور نہیں ہونا چاہیے اور اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے نہ کہ حکام کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔ سیلکٹرز جو کوئی بھی ہوں یا اگلا نیا کوچ جو کوئی بھی آئے کپتان اپنی طاقت حاصل کرنی ہوگی۔
پاکستان کرکٹ نے کئی کروٹ بدلے اور سرفراز کو ٹیم اور میڈیا دونوں سے نمٹنے کے لیے تیکنیک سے بھرپور ہونا ہوگا اگر ٹیم سب کی توقعات پر پورا نہیں اترتی ہوتو مسلسل ناقابل معافی ہوسکتا ہے۔
اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوتا ہے تو سرفرازاحمد ٹی ٹوئنٹی طرز کرکٹ کے ساتوین کپتان ہوں گے جس کے افتتاحی میچ کے کپتان انضمام الحق تھے جہاں انھوں نے 2006 میں انگلینڈ کے خلاف صرف ایک میچ می کپتانی کی تھی۔یونس نے (2007 سے 2009 آٹھ میچوں میں اور اس طرز سے کنارہ کشی سے قبل ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا تاج پہنایا)۔ شعیب ملک (2007 سے 2010 تک 17 میچوں)، مصباح (2009 سے 2012 تک آٹھ میچوں)، آفریدی (2009 سے 2016 تک 43 میچوں اور محمد حفیظ نے(2012 سے 2014 کے دوران) 29 میچوں میں قیادت کی۔
اور اگر سرفراز نے چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی جانب سے دی گئی ذمہ داری کو اچھے انداز میں انجام دی تو وہ ون ڈے اور ٹیسٹ دونوں ٹیموں کی قیادت حاصل کرسکیں گے۔
انھوں نے 2015 میں اظہر علی کے زخمی ہونے پر زمبابوے کے خلاف پاکستان کی رہنمائی کرتے ہوئے سیریز جیت لی تھی۔
یہ سرفراز کا کردار تھا جو انھوں نے حقیقی طور پر پاکستان کے لیے پیش کیا تھا۔
سرفراز کی آسٹریلیا کے خلاف شاندار سنچری
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔