Dawn News Television

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2016 11:58am

صاحب خان کا شوقِ درس

دورِ حاضر میں جہاں قناعت کو کنجوسی اور تصوف کو فریب سمجھا جاتا ہو، جہاں زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنا زندگی کا اولین مقصد بن گیا ہو، جہاں فیض و فقیری سے خانقاہیں خالی ہوں، وہاں ایسے لوگوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے جو گھپ اندھیرے میں کسی چراغ کی مانند ہوتے تھے۔

ہم سب نے بہت سے قطب قلندر سنے ہوں گے پڑھے ہوں گے، لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ضلع میرپورخاص (سابقہ تھر پارکر) کی ایک دیہاتی بستی میں ایک مثالی کردار کے انسان رہتے تھے، جو علم و فن، عقل و فکر، اور درد دل رکھنے والے ایک عاجز انسان تھے۔

میرپور خاص سے جنوب کی جانب تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جس کا نام دولت خان لغاری ہے۔ برطانوی راج میں یہ دیہات ایک تجارتی شہر تھا۔ تجارت پیشہ ہندوؤں کا ایک طویل اور کشادہ بازار تھا جو کہ بہت پر رونق ہوا کرتا تھا، لیکن اب ویسا اوج اور عروج نہیں رہا۔

بات ہو رہی تھی اس نیک بزرگ کی جن کی ولادت اسی گاؤں میں 2 جولائی 1902 کو ہوئی۔ والدین نے نام صاحب رکھا تھا اور آس پاس کے لوگ سائیں صاحب خان پکارتے تھے۔ ان کا خاندان ڈیرہ غازی خان سے نکل کر مختلف جگہوں پر پڑاؤ ڈالتا، بھٹکتا آخرکار اس دیہات میں آکر سکونت پذیر ہوا تھا۔

وہ اپنے والد حاجی امید علی خان لغاری کے اکیلے فرزند تھے۔ اسی گاؤں کے ایک نوجوان مولوی نبی بخش صاحب لغاری نے ایک تعلیمی ادارہ رجسٹر کروایا تھا۔ اس ادارے میں صاحب خان 9 روپے ماہانہ تنخواہ پر بطور نائب استاد مقرر ہوئے، اور بہت زور و شور سے رات دن تعلیمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔

پڑھیے: استاد جی: سڑک پر پڑھاتے ایک بے غرض معلم

اس وقت جدید علوم میں دیہات میں صرف ان کا ہی اسکول اول نمبر پر تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب گاؤں میں کتنے ہی دیہاتی مسافر طلباء دور دور سے آکر یہاں علم حاصل کرتے تھے، جن کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام سائیں صاحب خان کے ذمے ہوتا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد تعلیمی حالات بدلنے کی وجہ سے تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ قوم کی خستہ حالی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا تھا۔

اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہ تھی نہ ہی کوئی اسکول تھا، سائیں صاحب خان نے گاؤں کی لڑکیوں کو اکٹھا کر کے اپنے گھر میں پڑھانا شروع کردیا اور یوں لڑکیوں کے اسکول کی بنیاد پڑی۔ ان کی پڑھائی ہوئی لڑکیاں آج اسی اسکول میں پڑھا رہی ہیں جس اسکول کی بنیاد انہوں نے رکھی تھی۔

سائیں صاحب خان کی واحد دستیاب تصویر۔

"گاؤں سدھار تحریک" میں شامل ہو کر پسماندہ دیہاتی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ نہ جانے کیوں ان کی ہر دل عزیز شخصیت کی شہرت کو دیکھ کر ان کے بہت سے قریبی لوگ ان سے حسد کرنے لگے تھے کیونکہ گاؤں میں آنے والا ہر افسر ان ہی سے آ کر ملتا اور مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کرتا۔

ان سے تعلیم پانے والے طلبا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود اس درویش صفت انسان کی تہہ دل سے عزت کرتے تھے۔

حسد اور بغض کی آگ اس وقت زیادہ بھڑک اٹھی جب ان کو حکومت کی جانب سے یونین کونسل دولت پور کا نامینیٹ ممبر مقرر کیا گیا، لیکن اپنے قریبی لوگوں کے اس ناروا سلوک سے دلبرداشتہ ہو کر وہ یہ گاؤں ہی چھوڑ گئے۔

ماہ دسمبر 1959 کی سخت سردی میں دلت قبیلے سے تعلق رکھنے والے کولہیوں کے گاؤں، "کولہی ڈولا رام" کے باہر ببول کے ایک پرانے درخت کے نیچے کسی جوگی کی طرح آکر بیٹھ گئے۔

اس وقت اس گاؤں کی حالت غربت کی وجہ سے بدتر تھی۔ ان حالات میں تعلیم کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ صاحب خان نے ایک کولہی کو بلا کر کدال مانگی تاکہ اس ببول کے نیچے زمین کو ہموار کر کے بیٹھا جاسکے۔ ان کے اطراف کولہی قبیلے کے نوجوان حیران و پریشان نظروں سے دیکھنے لگے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ وہ بزرگ انہیں تعلیم دینا چاہتا ہے تو نوجوانوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔

مزید پڑھیے: ایک تعلیم دوست جاگیردار کی کہانی

لیکن کولہی برادری کے بزرگ پریشان ہوگئے۔ ان کے گاؤں کا وڈیرہ غصے کا بہت تیز تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ وہ ہمارے بچوں کی تعلیم کا سن کر ہم سے اپنی زمین چھین لے گا، لیکن ان کا عزم دیکھ کر گاؤں کے نوجوانوں نے ان کا ساتھ دیا۔ آخر کار نوجوانوں کا پلہ بھاری رہا اور تمام لوگ رضامند ہوگئے۔ دوسرے دن سے ہی وہ اس درخت کے نیچے تعلیم دینے میں مشغول ہوگئے۔

پہلے تو دو چار بچے آئے، مگر پھر کولہیوں کے بچوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان بچوں کے لیے تو ہر جگہ اسکول اور مدرسے کھلے ہوئے ہیں اور حکومت ہر طرح سے ان کی مدد کر رہی ہے، کتنے ہی مفت یتیم خانے قائم ہیں جن کی ہر کوئی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ جب قدرت نے مسلم اور غیر مسلم دونوں میں ایک جیسی استعداد اور قوتِ فہم رکھی ہے، فطرت نے اپنی فیاضی میں کوئی فرق نہیں رکھا، تو پھر ہم انسانوں نے مذہبی بھید بھاؤ کی دیوہیکل دیواریں کیوں کھڑی کر رکھی ہیں۔

اور ان دیواروں کو گرانے کی شروعات انہوں نے درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھانے سے کی۔ ڈولا رام کے گاؤں کے غریب کولہیوں کی عقیدت اور محبت کی انتہا یہ تھی کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں بنائے ہوئے مندر میں سائیں صاحب خان کی تصویر لگا دی تھی۔

انہوں نے عمر کے باقی دن اس ویرانے میں بیٹھ کر انسان ذات کی خدمت کرنے کا عزم بڑی خوبصورتی سے نبھایا۔

ان بچوں کی تعلیم کا تمام خرچ مثلاً کتابیں، سلیٹ، مشق کاپی اور قلم سب اپنے پیسوں سے لے کر دیتے تھے۔ اپنے لیے کھانا بھی وہ خود بناتے تھے اور چونکہ رہائش کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا، لہٰذا سردی گرمی میں ان کو وہیں رہنا پڑتا تھا۔

جانیے: لوگوں کو تعلیم پر مجبور کرنے والا ڈاکو

آج وہاں ڈولا رام کے نام سے ایک پرائمری اسکول کی بہترین عمارت ہے جہاں گاؤں کے بچے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حالانکہ اب کولہی قبیلا گیلا رام کے گاؤں میں آباد ہوگیا ہے، لیکن اسکول اب بھی ڈولا رام کے نام سے رجسٹرڈ ہے، جس کی بنیاد سائیں صاحب خان نے ڈالی تھی۔

اس دور میں وہاں کے لوگ کولہیوں کی تعلیم اور ان کی بیداری کے مکمل طور پر خلاف تھے، اس لیے نجی امداد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

علم بانٹنے والے اس سخی نیک مرد نے اپنی تمام زندگی تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کردی اور مارچ 1978 میں یہ عظیم انسان اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔

گو کہ آج سائیں صاحب خان ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن ان کا شوقِ درس تعلیم دینے اور حاصل کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ کس طرح انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود مفت میں، بغیر کسی صلے کی امید کے، بچوں کو پڑھانا جاری رکھا، اگر ہم اس کلیے کو سمجھ جائیں، اور اسکولوں کے لیے حکومت کا انتظار کرنے کے بجائے یہ بیڑہ خود اٹھا لیں، تو ایک نہ ایک دن معاشرے میں تبدیلی ضرور آئے گی۔

Read Comments