دورِ حاضر میں جہاں قناعت کو کنجوسی اور تصوف کو فریب سمجھا جاتا ہو، جہاں زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنا زندگی کا اولین مقصد بن گیا ہو، جہاں فیض و فقیری سے خانقاہیں خالی ہوں، وہاں ایسے لوگوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے جو گھپ اندھیرے میں کسی چراغ کی مانند ہوتے تھے۔
ہم سب نے بہت سے قطب قلندر سنے ہوں گے پڑھے ہوں گے، لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ ضلع میرپورخاص (سابقہ تھر پارکر) کی ایک دیہاتی بستی میں ایک مثالی کردار کے انسان رہتے تھے، جو علم و فن، عقل و فکر، اور درد دل رکھنے والے ایک عاجز انسان تھے۔
میرپور خاص سے جنوب کی جانب تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جس کا نام دولت خان لغاری ہے۔ برطانوی راج میں یہ دیہات ایک تجارتی شہر تھا۔ تجارت پیشہ ہندوؤں کا ایک طویل اور کشادہ بازار تھا جو کہ بہت پر رونق ہوا کرتا تھا، لیکن اب ویسا اوج اور عروج نہیں رہا۔
بات ہو رہی تھی اس نیک بزرگ کی جن کی ولادت اسی گاؤں میں 2 جولائی 1902 کو ہوئی۔ والدین نے نام صاحب رکھا تھا اور آس پاس کے لوگ سائیں صاحب خان پکارتے تھے۔ ان کا خاندان ڈیرہ غازی خان سے نکل کر مختلف جگہوں پر پڑاؤ ڈالتا، بھٹکتا آخرکار اس دیہات میں آکر سکونت پذیر ہوا تھا۔
وہ اپنے والد حاجی امید علی خان لغاری کے اکیلے فرزند تھے۔ اسی گاؤں کے ایک نوجوان مولوی نبی بخش صاحب لغاری نے ایک تعلیمی ادارہ رجسٹر کروایا تھا۔ اس ادارے میں صاحب خان 9 روپے ماہانہ تنخواہ پر بطور نائب استاد مقرر ہوئے، اور بہت زور و شور سے رات دن تعلیمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔
اس وقت جدید علوم میں دیہات میں صرف ان کا ہی اسکول اول نمبر پر تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب گاؤں میں کتنے ہی دیہاتی مسافر طلباء دور دور سے آکر یہاں علم حاصل کرتے تھے، جن کے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام سائیں صاحب خان کے ذمے ہوتا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد تعلیمی حالات بدلنے کی وجہ سے تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ قوم کی خستہ حالی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا تھا۔
اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی توجہ نہ تھی نہ ہی کوئی اسکول تھا، سائیں صاحب خان نے گاؤں کی لڑکیوں کو اکٹھا کر کے اپنے گھر میں پڑھانا شروع کردیا اور یوں لڑکیوں کے اسکول کی بنیاد پڑی۔ ان کی پڑھائی ہوئی لڑکیاں آج اسی اسکول میں پڑھا رہی ہیں جس اسکول کی بنیاد انہوں نے رکھی تھی۔