Dawn News Television

اپ ڈیٹ 04 مئ 2016 12:22pm

دیدہ زیب فراسی بُنائی کی دم توڑتی روایت

موئن جو دڑو کی 5 ہزار سالہ قدیم تہذیب کی مالک وادیء سندھ اپنی منفرد تہذیب وتمدن اور ثقافت کی وجہ سے دنیا بھر میں اہمیت کی حامل ہے۔ چاہے اجرک ہو، سندھ ٹوپی ہو یا رلی، ہر ایک اپنے منفرد انداز اور رنگوں کے حسین امتزاج کے سبب دیکھنے والے کا دل موہ لیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ دستکاری دنیا بھر میں سندھ کی پہچان بن چکی ہے۔

یوں تو بھٹائی کی اس نگری میں کراچی سے لے کر کشمور تک دستی ہنر کے مراکز گھر گھر میں قائم ہیں، مگر قدیم سندھ کی پہچان فراسی کی تیاری کا مرکز تحصیل گولارچی ہے۔ ماضی میں گولارچی اور اس کے گرد و نواح میں 500 عورتیں فراسی کی کاریگر تھیں مگر جدت پسندی کے سبب فراسی کی جگہ ریڈی میڈ قالین سمیت دیگر فرشیوں نے لے لی ہے جس کے سبب ہاتھ سے تیار کردہ حسین اور خوبصورت فراسی اور اس کے کاریگر رو بہ زوال ہیں۔

دیدہ زیب رنگوں سے مزین فراسی — تصویر ناصر انجم

گولارچی میں تیار ہونے والی ایک فراسی — تصویر ناصر انجم

فراسی قالین کی طرح کا ایک بچھونا ہے۔ اونٹ کے بالوں کو رنگ کر دیگر ریشمی اور سوتی دھاگوں سے مل کر فراسی تیار کی جاتی ہے اور ایک فراسی کو مکمل کرنے کے لیے چار خواتین مسلسل تین ماہ محنت کرتی ہیں۔

یہ فراسی شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات میں خاص شخصیات کے لیے استعمال کی جاتی ہے یا پھر کسی مہمان کو قیمتی تحفتے کے طور پر دی جاتی ہے۔ تقریبآ 200 سال سے مہری قبیلے کی خواتیں فراسی تیار کرتی آ رہی ہیں مگر اب جدت پسندی کے عفریت نے فراسی کے کاریگروں کو اپنے اندر نگل لیا ہے۔ اب صرف ضلع بدین کے بجاری شریف، چاکر خان مہری، نندانی سمیت 6 سے7 گاؤں میں فراسی تیار کی جاتی ہے۔

مہری قبیلے کی خواتین فراسی بافی کر رہی ہیں۔ — تصویر ناصر انجم

ایک زیرِ تکمیل فراسی — تصویر ناصر انجم

قدیم تہذیب کے اس خوبصورت حصے، فراسی کی بقاء فروغ کے لیے کام کرنے والے حسن مہری نے بتایا کہ فراسی کی تیاری ایک محنت طلب کام ہے تقریباً 3 ماہ میں ایک فراسی تیار کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فراسی کی تیاری میں اونٹوں کے بال استعمال کیے جاتے ہیں اور ایک فراسی کی عمر ایک سو سے ڈیڑھ سو سال تک ہوتی ہے اور سو سالوں تک فراسی اپنا رنگ نہیں کھوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سو سے دو سو سال پرانی فراسیاں بھی موجود ہیں۔ ایک فراسی کی قیمت 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہوتی ہے مگر اب بازار میں سستے کمبل دستیاب ہونے کی وجہ سے فراسی کی کھپت میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب صرف کچھ گھر ہی فراسی استعمال کرتے ہیں۔

ایک فراسی کو مکمل کرنے کے لیے چار خواتیں مسلسل تین ماہ تک فراسی بافی کرتی ہیں — تصویر ناصر انجم

گولارچی میں تیار ہونے والی فراسی — ناصر انجم

دنیا کی مہذب قومیں اپنی قومی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک جامع حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ پاکستان اور سندھ بھی ایک قدیم ثقافت کا مرکز ہے۔ ثقافت کے فروغ اور بقا کے لیے وزارتِ ثقافت بھی موجود ہے مگر محکمہ ثقافت نے فراسی کے فروغ کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ ثقافت سندھ میں فراسی کی بقا اور فروغ کے لیے اقدامات کرے اور ایکسپو سینٹرز میں ہونے والی نمائشوں میں فراسی کی مختلف اقسام کی بھی نمائش کی جائے تاکہ ملک سمیت دنیا بھر میں فراسی کی اہمیت واضح ہوسکے اور اس ہنر کو فروغ حاصل ہوسکے۔

Read Comments