سورج کے ساتھ طلوع اور غروب ہونیوالے 'شمسی بچے'
سورج کے ساتھ طلوع اور غروب ہونے والے 'بچے'
بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اتنی حسرت سے سورج نکلنے کا انتظار کرتے ہوں گے جیسے شعیب، راشد اور الیاس کرتے ہیں، یہ تینوں بچے بلوچستان کے اس گاﺅں سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے پراسرار مرض کی بناءپر شہرت حاصل کرچکا ہے۔
میاں کنڈی نامی یہ گاﺅں کوئٹہ سے کوئی 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے ہیں اور اس کے یہ رہائشی بچے جن کی عمریں ایک، نو اور 13 سال کی ہیں، سورج غروب ہونے کے بعد ہلنے کے قابل نہیں رہتے اور بے تابی سے اگلے دن کی آمد کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔
صبح 4 بجے وہ سورج کی اولین شعاعوں کے ساتھ جاگتے ہیں اور ان کے اندر توانائی اور زندگی دوڑ جاتی ہے۔ جیسے جیسے سورج کا سفر مغرب کی جانب تیز ہوتا ہے، ان جسمانی طاقت کم ہونے لگتی ہے اور غروب کے وقت وہ مکمل طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق یہ دنیا بھر میں اس طرح کے مرض کا رپورٹ ہونے والا پہلا کیس ہے " یہ ایک طبی سائنس کے لیے چیلنج بن جانے والا معمہ ہے جسے حل کرنا ہوگا"، یعنی ایسے جسم جو سورج کی حرکت سے منسلک ہیں۔
ان کا نام
کوئٹہ کی آئی یونیورسٹی کے گارڈ ہاشم کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے اسی عارضے کے ساتھ پیدا ہوئے اور یہ کوئی عادت یا بے قاعدگی نہیں جو عمر کے کسی اور حصے میں سامنے آئی، پہلے دن سے ہی ان کے جسم کی حرکات کا انحصار سورج کی روشنی پر ہے۔ جب گاﺅں کے رہائشیوں نے اس بارے میں سنا تو وہ حیرت زدہ ہوئے اور ان کی جانب سے ان کو 'شمسی بچوں' کا نام دیا گیا۔
مگر ان کے تمام بچے اس عارضے کا شکار نہیں، ہاشم جن کی شادی اپنی کزن سے ہوئی، کہ تین بچے اور ہیں، دو لڑکیاں اور ایک لڑکا، جو اس غیرمعمولی کیفیت کا شکار نہیں۔
ہاشم کا کہنا تھا کہ ان کا قصبہ بیماریوں سے پاک ہے اور تمام جدید سہولیات جیسے بجلی، فون اور گیس وغیرہ دستیاب ہیں۔ یہاں کے رہائشی ملک کے بیشتر حصوں کی طرح صحت مند اور معمول کی زندگی گزارتے ہیں۔
لوگوں کی جانب سے اس بیماری کی جڑیں ان کے آبائی علاقے سے جوڑی جارہی ہیں تاہم وہ اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں ' ہم کسی پسماندہ گاﺅں کے رہنے والے نہیں'۔
اگر ان بچوں کے معمولات کا جائزہ لیا جائے تو لڑکوں کی روزمرہ کی سرگرمیاں معمول کی نظر آتی ہیں، یہ بچے صبح جلدی اٹھتے ہیں، اکثر تو سورج طلوع ہونے سے بھی پہلے اور توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں۔
ایک مدرسے میں پڑھنے کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہیں اور اپنا وقت بہن بھائیوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ جب ان کے بس میں ہوتا ہے تو وہ اپنے والد کے پارٹ ٹائم کام یعنی پالتو مویشیوں کی فارمنگ میں بھی مدد دیتے ہیں۔
ہاشم کے مطابق " وہ کسی کام پر کبھی شکایت نہیں کرتے بلکہ وہ ہر اس چیز سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو انہیں کرنے کے لیے کہی جائے"۔