Dawn News Television

شائع 23 مئ 2016 10:32pm

بلوچستان میں ڈرون حملے پر امریکا سے سخت احتجاج

اسلام آباد: پاکستان نے پیر کے روز امریکی سفیر ڈیوڈ ہیلی کو طلب کرکے صوبہ بلوچستان میں ہفتے کو ہونے والے ڈرون حملے پر شدید احتجاج کیا جس کے باعث اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور ہلاک ہوگئے۔

ڈان نیوز کے مطابق امریکی سفیر کو دفترخارجہ میں طلب کرکے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا گیا اور باور کرادیا گیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کیخلاف ہیں ۔

وزارت خارجہ میں امریکی سفیر کی طلبی پر وزیراعظم نوازشریف کی معاون خصوصی طارق فاطمی بھی موجود تھے ۔

دفترخارجہ سے جاری بیان کے مطابق، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا انسداد دہشتگردی کے حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کرتے آئے ہیں، امریکا کو ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیئے جس سے چار ملکی امن مذاکرات متاثر ہوں۔

طارق فاطمی کا کہنا تھا کہ اس قسم کے ڈرون حملے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مصالحت کیلئے جانے والی کوششوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

ملا اختر منصور کون تھے؟


• ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال تھی۔

• انہوں نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔

• افغان طالبان کے امیر نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔

• طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔

• افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔

• سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس خاموشی کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی، مشرف دور میں امریکی ڈرون حملوں کے لئے 'ریڈ لائن' مقرر کی گئی تھی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نےڈرون حملے میں ملامنصور کی ہلاکت کے معاملے پر سینیٹ سیکرٹریٹ میں تحریک التوا جمع کرادی ہے۔

تحریک التوا میں ڈرون حملوں کی توسیع کے معاملے پربحث کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

پنجاب اسمبلی میں بھی پیپلزپارٹی کی رکن صوبائی اسمبلی فائزہ ملک کی جانب سے ڈرون حملے کےخلاف قرار داد جمع کرائی گئی۔

قرارداد میں حملوں پرتشویش اور مذمت کا اظہار کرنے کے علاوہ کہاگیا ہے کہ مستقبل میں ایسے حملے سے بچنے کیلئے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایا جائے۔

خیال رہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اعلان کیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر ایک دور دراز علاقے میں فضائی حملے میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے ہیں۔

پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کوک نے بتایا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع نے پاک افغان سرحد پر ہدف کے عین مطابق کی گئی ایک فضائی کارروائی میں ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

بعدازاں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملا اختر منصور پر کیے جانے والے ڈرون حملے سے قبل امریکا نے معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔

نفیس زکریا کے مطابق واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم کے نام سے ہوئی ہے۔

ترجمان نے بتایا تھا کہ ڈرون حملے سے متعلق معلومات آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف سے شیئر کی گئی تھیں۔

ملااختر محمد منصور کو سابق امیر ملا عمر کی جگہ امیر بنایا گیا تھا— فوٹو: اے پی

دوسری جانب ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے ایک سینئر کمانڈر ملا عبدالرؤف نے بھی ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں واشنگٹن میں موجود سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے پاکستان کے طاقت ور حلقوں کو کسی بھی قسم کے بڑے خدشات لاحق نہیں۔

مزید پڑھیں: 'ملا منصور حملے سے قبل ایران میں نہیں تھے'

ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ملا اختر منصور کے ماضی میں پاکستانیوں کے ساتھ کچھ تعلقات تھے مگر ان تعلقات میں ان کے افغان طالبان کے امیر بننے کے بعد کشیدگی آ گئی تھی۔

پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد بار کوشش کی کہ وہ افغان مفاہمتی عمل میں شامل ہو جائیں لیکن ملا اختر منصور کی جانب سے اس کو قبول نہیں کیا گیا۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے طالبان مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گے، طالبان کے پہلے امیر ملا عمر کی ہلاکت پر طالبان پہلے ہی کئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

Read Comments