Dawn News Television

اپ ڈیٹ 27 مئ 2016 02:55pm

بلوچستان سے افغان انٹیلی جنس کے 6 اہلکار گرفتار

کوئٹہ: بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ افغان انٹیلی جنس کے 6اہل کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ افغان انٹیلی جنس کے گرفتار اہلکاروں نے پاکستان میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا۔

اس موقع پر وزیر داخلہ نے میڈیا کے سامنے گرفتار اہلکاروں کی ویڈیو بھی پیش کی، جس میں انہوں نے مختلف دھماکوں کا اعتراف کیا.

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے شہریوں کو پاکستان میں مہمان رکھا عزت دی لیکن پاکستان کے ساتھ افغان انٹیلی جنس کیا کر رہی ہے۔



افغان مہاجرین پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہیں، افغان عزت سے گئے تو ٹھیک ورنہ دھکے دے کرنکال دیں گے۔

سرفراز بگٹی

انہوں نے مزید بتایا کہ افغان مہاجرین کے پاکستان سے جانے کا وقت آگیا ہے، افغان مہاجرین عزت کے ساتھ چلے جائیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ افغان مہاجرین پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہیں، افغان عزت سے گئے تو ٹھیک ورنہ دھکے دے کرنکال دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی 'را' اور افغان انٹیلیجنس اینجسی این ڈی ایس مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کررہے ہیں۔

ویڈیوز میں گرفتار افراد نے بتایا کہ ان کی ملاقاتیں افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کے اعلیٰ حکام سے ہوئیں، قندھار میں جنرل مالک اور دیگر حکام سے ملاقاتیں ہوئیں جبکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کو افغان خفیہ ادارے کی جانب سے تخریبی کارروائیوں پر پیسے دیئے جاتے تھے.

افغان انٹیلی جنسی ادارے کے ان گرفتار جاسوسوں نے بتایا کہ ان کو بلوچستان میں امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کا ہدف دیا گیا تھا.

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں قتل کے پیسے ملتے تھے، کسی بھی بم دھماکے پر ان کو 80ہزار روپے دیئے جاتے تھے جبکہ ٹارگٹ کلنگ 2 لاکھ سے زائد روپے ملتے تھے.

افغان انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کے ان جاسوسوں نے تسلیم کیا کہ بلوچستان میں 40 افراد کو قتل کیا جن میں سے 22 افراد کی ٹارگٹ کلنگ صوبائی دارالحکومت میں کی گئی جبکہ چمن کی گھاس مارکیٹ ، ریلوے اسٹیشن، چمن بائی پاس، بکرامنڈی اور دیگر مقامات پر بھی دھماکے کیے گئے.

ایک گرفتار افغان انٹیلی جنس اہلکار نے کہا کہ 10ہزار روپے میں جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوایا.

گرفتار کیے گئے اہلکاروں کے اعترافات

محبوب ولد داد خان کوچی

محبوب نے بتایا کہ ایک شخص نے 30 ہزار روپے کے عوض ان کا جعلی شناختی کارڈ بنوایا جبکہ وہ افغانی باشندے ہیں اور ہلمند کے ضلع گرم سیر سے ان کا تعلق ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ طویل عرصے پاکستان میں رہنے کے بعد 1996 میں افغانستان واپس چلے گئے جبکہ 2005 میں کرزئی حکومت کے دوران وہ پاکستان دوبارہ آگئے۔

اپنی اعترافی ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں این ڈی ایس کے اہلکاروں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2013 میں ایک این ڈی ایس اہلکار نے انہیں کابل بلایا جس کے بعد وہ کوئٹہ سے قندھار اور پھر کابل چلے گئے جہاں ان کی ملاقات این ڈی ایس کے آپریشنل چیف سمیت دیگر سے ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ ان ملاقاتوں کے دوران انہیں پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی ہدایات دی گئیں جس کے بعد انہوں نے کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگز کا سلسلہ شروع کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ کرنے کے لیے انہیں فی کس دو لاکھ سے 50 لاکھ روپے کے درمیان دیے جاتے تھے اور ہر ماہ 50 ہزار سے ایک لاکھ اس کے علاوہ دیے جاتے تھے۔



کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کرنے کے لیے ہمیں فی کس دو لاکھ سے 50 لاکھ روپے کے درمیان دیے جاتے تھے اور ہر ماہ 50 ہزار سے ایک لاکھ اس کے علاوہ بھی دیے جاتے تھے۔

گرفتار افغان انٹیلی جنس اہلکار کا انکشاف

انہوں نے بتایا کہ جب 10-15 افراد کو ٹارگٹ کردیا جاتا تو وہ قندھار جاکر پیسے لے آتے۔

عصمت اللہ ولد محمد گل

عصمت اللہ افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ضلع گرم سیر کے رہائشی ہیں جہاں سے وہ نقل مکانی کرکے مسلم باغ آگئے۔

اپنی اعترافی ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ مال گیگی نامی علاقے میں انہوں 40 ہزار روپے دے کر اپنا جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوایا۔

انہوں نے کہا کہ این ڈی ایس کے اہلکاروں نے انہیں بلوچستان میں کارروائیوں کے لیے پیسے دینے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا جبکہ انہوں نے صرف کوئٹہ میں 22 افراد کو قتل کرنے کا بھی اعتراف کیا۔

عبداللہ شاہ ولد محمد صدیق

عبداللہ شاہ نے کہا کہ وہ گزشتہ 20 سال سے پشین سرخاب میں رہائش پذیر تھے جبکہ انہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ 10 ہزار روپے میں بنوایا۔

اپنے اعترافی بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں ان کی ملاقات این ڈی ایس کے ایک افسر سے قندھار میں کروائی گئی جس میں انہیں کوئٹہ اور چمن میں بم دھماکوں کی ہدایات دی گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ این ڈی ایس کی ہدایت پر انہوں نے چمن شہر میں اب تک سات بم دھماکے کیے ہیں، فی دھماکا انہیں 80 ہزار روپے دیا جاتا تھا جبکہ اس کی ٹریننگ انہیں قندھار میں دی گئی۔

احمد اللہ ولد عبدالحلیم

احمد اللہ نے بتایا کہ وہ افغانستان کے شہر قندھار کے رہائشی ہیں جبکہ 30 سال پہلے ان کا خاندان بشیر چوک، کوئٹہ منتقل ہوگیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مارچ 2014 میں اسپن بولدک میں ان کی این ڈی ایس کے افسر سے کروائی گئی جہاں انہیں کوئٹہ میں عوامی مقامات پر بم دھماکے کرنے کی ہدایات دی گئیں۔

احمد اللہ نے بتایا کہ انہوں نے پہلا دھماکا اپریل 2014 میں قمبرانی روڈ کوئٹہ میں کیا جبکہ انہیں فی دھماکا 80 ہزار روپے دیے جاتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ دوسرا دھماکا کرنے سے قبل کچھ دیر قبل انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

نور احمد ولد عبدالستار

نور احمد نے بتایا کہ ان کا خاندان 30 سال قبل افغانستان سے کوئٹہ منتقل ہوا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دن ایک شخص نے انہیں کوئٹہ میں دھماکے کرنے کی پیشکش کی جو این ڈی ایس کے لیے کام کرتا تھا جس کے بدلے انہیں 80 ہزار روپے دیے جائیں گے۔

نور احمد کے مطابق انہوں نے پہلا دھماکا اپریل 2014 میں زیارت سے تھوڑا آگے قمبرانی روڈ پر کیا جبکہ دوسرے بم دھماکے سے قبل انہیں گرفتار کرلیا گیا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

Read Comments