پاکستان

رواں مالی سال حکومت کے 261 ارب کے اضافی اخراجات

سرکاری اخراجات کی یہ رقم، اُس رقم سے 28 فیصد زائد ہے جس کی رواں مالی سال کے آغاز میں پارلیمنٹ نے منظوری دی تھی۔

اسلام آباد: حکومت کے مالی نظم و ضبط کے دعووں کے باوجود، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے رواں مالی سال میں بڑے پیمانے پر اضافی سرکاری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے 261 ارب روپے کے ’ضمنی بجٹ‘ کی منظوری مانگ لی۔

سرکاری اخراجات کی یہ رقم، اس رقم سے 28 فیصد زائد ہے جس کی رواں مالی سال کے آغاز میں پارلیمنٹ نے منظوری دی تھی۔

سینئر حکومتی عہدیدار کے مطابق حکومت کی موجودہ سادگی کی پالیسی کی روشنی میں ان اضافی اخراجات میں سے بیشتر کو اسراف اور نظر انداز کیے جانے والے اخراجات کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر ان ضافی اخراجات میں سے تقریباً ایک کروڑ 50 لاکھ روپے وزیر اعظم آفس کے لیے گاڑیاں خریدنے پر خرچ کیے گئے، جبکہ اضافی ایک کروڑ 50 لاکھ روپے وزرا اور وزرائے مملکت کو ٹی اے/ڈی اے کی مد میں ادا کیے گئے۔

اسی طرح وزارت خارجہ نے 35 ہائی سیکیورٹی گاڑیاں خریدنے کے لیے 82 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ کیے، جبکہ اسلام آباد میں قازقستان کے سفارتخانے کی تعمیر کے لیے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو 10 کروڑ 70 لاکھ روپے دیئے گئے۔

دیگر 10 کروڑ 90 لاکھ روپے وزارت خارجہ نے کئی نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے خرچ کیے، حالانکہ سرکاری اداروں کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد ہے۔

پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی بجٹ دستاویزات کے مطابق اضافی سرکاری اخراجات کی مد میں 260 ارب 88 کروڑ روپے کی منظوری مانگی گئی ہے، جن میں سے 158 ارب 88 کروڑ روپے تکنیکی نوعیت کے اخراجات کی صورت میں جبکہ 102 ارب روپے اضافی اخراجات کی صورت میں ظاہر کیے گئے ہیں، جن سے بجٹ پر اضافی بوجھ پڑنے کا خدشہ ہے۔

وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار نے ان اخراجات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اضافی گرانٹس کا بڑا حصہ تکنیکی نوعیت کے کاموں کے لیے خرچ کیا گیا، تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ اضافی گرانٹس کا حجم گزشتہ 3 سالوں سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔

حکومت کی سادگی کی پالیسی کے باوجود مالی سال 14-2013 میں 65 ارب روپے، 15-2014 میں 139 ارب روپے اضافی خرچ کیے گئے۔

اپنے تحریری بیان میں وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ ضمنی گرانٹس کا مطلب ’ان اخراجات کے مقاصد کے لیے رقم کی ادائیگی ہے، جو گرانٹس کے مطالبات کو حتمی شکل دیتے وقت نہیں سوچی جاسکتی تھی، جبکہ یہ ضمنی گرانٹس مالی بجٹ پر اضافی بوجھ ڈالتی ہیں۔‘

مالیاتی بجٹ میں رقم مختص کیے جانے کے باوجود ان اضافی گرانٹس میں زیادہ تر کو بجٹ دستاویز میں ’چارجڈ اخراجات‘ بتایا گیا ہے اور پارلیمنٹ ان گرانٹس کی منظوری کو رد نہیں کرسکتی، کیونکہ یہ رقم پہلے ہی خرچ کی جاچکی ہے۔

یہ خبر 6 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔