پاکستان

خواتین پر تشدد کی ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل قرار

اسلامی نظریاتی کونسل خواتین کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرسکتی، لہذا اسے ختم کردینا چاہیے، سینیٹرز

اسلام آباد: سینیٹرز نے ملک میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافے کا ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل کو قرار دے دیا۔

سینیٹ کے اجلاس میں لاہور میں پسند کی شادی کرنے والی نوجوان لڑکی کو جلا کر قتل کرنے کے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے سینیٹرزکا کہنا تھا کہ ملک میں غیرت کے نام پر خواتین کا قتل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ان واقعات کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

سینیٹ اجلاس کی تاریخ میں اس گھناؤنے جرم کے خلاف پہلی بار 5 منٹ کے لیے کارروائی معطل کئی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لڑکی کو جلانے کا واقعہ، چیئرمین سینیٹ کا نوٹس

واضح رہے کہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے لڑکی کو جلانے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو اس واقعے کی تحقیقات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اجلاس کے دوران اپوزیشن رہنما اعتزاز احسن اور فرحت اللہ بابر نے اسلامی نظریانی کونسل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدر بھی موجود تھے تاہم دونوں نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کیے رکھی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹرز نے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی وجہ سے ملک میں خواتین پر تشد د میں اضافہ ہورہا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے جلد تحفظ نسواں بل کی قانون سازی کی جائے۔

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی سابق سینیٹر صغریٰ امام نے تحفظ نسواں کا بل پیش کیا تھا اور رواں برس مارچ میں سینیٹرز نے متفقہ فیصلے کے بعد تحفظ نسواں بل کی منظوری دے دی تھی تاہم حال ہی میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں متفقہ رائے سے کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔

فرحت بابر کا کہنا تھا کہ مشترکہ اجلاس میں کچھ جماعتوں کی جانب سے تحفظ نسواں بل کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے، اسلامی نظریانی کونسل آئینی اعتبار سے اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ایک خاتون کے ہاتھوں بیٹی کو زندہ جلانے کا واقعہ بہت درناک ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس واقعہ پر کسی کو افسوس ہی نہیں، گزشتہ ماہ بھی ایبٹ آباد میں 14 افراد کی جانب سے عنبرین کو جلانے کا واقعہ پیش آیا تھا، اس کیس میں ملزمان کی گرفتاری تو عمل میں آئی لیکن اب ملزمان اس لڑکی کے والد پر مقدمہ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ملزمان ملک میں کمزور قانون کی وجہ سے بہت جلد بری ہوجائیں گے لیکن عنبرین کے اہلخانہ کو انصاف نہیں ملے گا۔

اعتزاز احسن نے حکومت کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل پر کروڑوں روپے خرچ کرنے پر بھی سخت تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کونسل کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن کونسل کے اراکین خواتین کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرسکتے، اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کردینا چاہیے کیونکہ اس کی اب کوئی قانونی اور آئینی حیثیت باقی نہیں رہی۔

انہوں نے حال ہی میں ہونے والے عنبرین، زینت اور ماریہ کو جلا کر قتل کرنے کے واقعات کے بارے میں کہا کہ اگر تحفظ نسواں بل کی منظوری ہوتی تو غیرت کے نام پر اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوتے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اب تحفظ نسواں بل کی منظوری کے لیے ایک دو دن میں مشترکہ اجلاس طلب کیا جائے۔

مزید پڑھیں: تحفظ نسواں بل آئین کےخلاف قرار

اعتزاز احسن نے امید ظاہر کی کہ ان واقعات کے بعد مذہبی جماعتیں بل کی منظوری کے فیصلے کے حوالے سے نظر ثانی کریں گی۔

خیال رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ تحفظ نسواں بل کو اسلامی اقدار اور آئین پاکستان کے خلاف قرار دے دیا تھا۔

معروف فلمساز شرمین عبید چنائے کی حال ہی میں غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے بننے والی ڈاکومینٹری فلم کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ وزیراعظم اس ڈاکیومینٹری فلم کو دیکھ چکے ہیں اور پاکستان کو اس فلم میں آسکر ایوارڈ ملنے کا اعزاز بھی حاصل ہے لیکن افسوس ہے کہ پارلیمنٹ اس جرم کے خلاف قانون سازی کرنے سے روک رہی ہے۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ وہ سینیٹ میں صغریٰ امام کے بل کی منظوری کی حمایت کرچکے ہیں۔ انہوں نے بھی اس بل کی منظوری کے لیے جلد از جلد قانون سازی کرنے پر زور دیا۔

تاہم انہوں نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کرنے کے لیے مشترکہ اجلاس بلانے کے بارے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی۔

*** یہ خبر 10 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی***


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔