Dawn News Television

شائع 28 جون 2016 06:13pm

وزیرِ اعظم کے باہر ہونے سے فرق کیا پڑتا ہے؟

پاکستان کا نظامِ حکومت جن ادوار سے گزرا ہے، وہ دو قسم کے ہیں۔ ایک دور وہ ہے جس میں ریاست ڈنڈے کے زور پر چلائی جاتی ہے۔ قلم والوں پر کوڑے برسانا، منتخب نمائندوں کو ٹانگ دینا، غائب کر دینا، تشدد کے طور پر بھنویں مونچھیں مونڈ ڈالنا سب جائز بھی ہوتا ہے اور قانوںی بھی۔ غیر آئینی ہونے کا سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ 'کاغذ کے اس ٹکڑے' کو پہلے ہی ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔

دوسری قسم میں آئین اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے، اور اوپر بیان کیے گئے تمام ہتھکنڈے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار پاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی، مرکزی کردار وہی رہتا ہے، بس پسِ پردہ چلا جاتا ہے۔

اس کردار کو عرفِ عام میں ریاست کے اندر ریاست کہا جاتا ہے۔ اس دور میں آئین کو سب سے پہلے احتراماً ایوانوں کی سب سے اونچی جگہ پر رکھا جاتا ہے، اور پھر عدل و انصاف اور قانون کی پاسداری کے اتنے چرچے کیے جاتے ہیں کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بس اب ریاست کسی مجرم کی جان بخشی نہیں کرے گی۔

مگر چونکہ اصل کردار تو پسِ پردہ ہوتا ہے، اس لیے سامنے چاہے جس بھی چیز کا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹ لیا جائے، ہوتا وہی ہے جو دوسری قوت چاہتی ہے اور کروانا چاہتی ہے۔ اور یوں حکومت کے لیے کئی چیزیں شجرِ ممنوعہ بن جاتی ہیں جس کے قریب بھی نہیں جایا جا سکتا۔

اس وقت خود منتخب حکومت کے لیے اپنی ہی ریاست کے کچھ علاقے قومی سلامتی کے نام پر نو گو ایریاز ہیں۔ مثلاً کراچی کے امن کے لیے سیاستدان رینجرز کو کوئی ٹائم فریم دینے اور کسی قسم کی کوئی پابندی عائد کرنے کے مجاز نہیں ہیں، کیونکہ یہ شہر کی سلامتی کا معاملہ ہے۔

بلوچستان میں ہزاروں افراد کی حراست اور گمشدگیوں پر آئین بھی خاموش ہے اور قانون بھی۔

یہاں بھی اسی لیے سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کیونکہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، پھر بھلے ہی کسی کی گرفتاری پوشیدہ رکھنا اور اسے شفاف ٹرائل کا موقع نہ دینا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

یکم مئی کو فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کو رینجرز نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے اجازت لے کر 90 دن کے ریمانڈ پر حراست میں لیا، ٹھیک 36 گھںٹوں کے بعد آفتاب احمد کے اہلخانہ کو تابوت میں بند لاش دی گئی۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق جسم پر جگہ جگہ بہیمانہ تشدد کے نشان تھے، مگر یہاں بھی بس خاموشی۔

ریاستِ پاکستان میں قومی سلامتی ایک ایسا برینڈ ہے جس میں خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، بلاامتیاز احتساب، اور ایسے کئی اہم امور اسی اندرونی ریاست کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔

باقی منتخب نمائندوں کا جو اختیار باقی رہتا ہے، وہ ترقیاتی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھنا اور افتتاح کرنا، اور کبھی کبھار اپنے اختیارات کے متعلق ایک دو سخت بیانات جاری کر دینا، اور اس کے بعد اس کی وضاحتیں پیش کرنا ہے۔

اختیار اور اقتدار کی اس آنکھ مچولی سے سب واقف ہیں، عدالتیں بھی، انتظامیہ بھی، اور خود اہلِ اقتدار بھی، مگر پھر بھی کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ وزیرِ اعظم کی غیر موجودگی انتظامی بحران پیدا کر سکتی ہے۔

ہمارا آئین وزیرِ اعظم کو چھٹی پر جانے کی اجازت دیتا ہے، اور وہ نظام جس کی کئی بار اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے، وہ بھی وزیر اعظم کی غیر موجودگی کو کھلے دل سے قبول کرتا ہے، کیونکہ اس نظام میں حقیقی طور پر دیکھا جائے تو امورِ حکومت کی حد محدود اور قومی سلامتی کی حد لامحدود ہے، جس کی ذمہ داری منتخب وزیر اعظم کے پاس نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔

کراچی آپریشن کو ہی دیکھ لیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں قتل و غارت ہوئی تو وزیرِ داخلہ نے وزیرِ اعظم کی نمائندگی کر لی، آرمی چیف، کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز ایک طرف دکھائی دیے۔ فیصلوں میں زیادہ تر پرانی باتیں تھیں، کچھ باتیں اگر اہم ہوئی بھی ہوں گے، تو وزیرِ اعظم کے واپس آنے پر ان کو بریف کر دیں گے۔

یہ تو ہوئی داخلہ پالیسی، خارجہ پالیسی کا شعبہ بھی ایک عرصے سے فوج کے زیرِ اثر ہے۔ حال ہی میں جی ایچ کیو میں ایک اجلاس ہوا جس میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز اور سینیئر افسران نے عسکری قیادت سے جی ایچ کیو میں ملاقات کی۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خارجہ پالیسی تیار کرتے وقت اس میں ملکی سلامتی کے ضامن ادارے یعنی فوج سے مشاورت ہونی چاہیے، لیکن اجلاس کے لیے جی ایچ کیو کے مقام کا انتخاب کیوں کیا گیا، یہ سمجھ سے باہر ہے۔

اگر تمام اہم معاملات وزیرِ اعظم کی غیر موجودگی میں خوش اسلوبی سے جاری و ساری ہیں، تو ایسی صورت میں وزیرِ اعظم ملک میں ہوں یا نہ ہوں، کیا کوئی فرق پڑتا ہے؟

Read Comments