Dawn News Television

اپ ڈیٹ 29 جون 2016 11:38am

بھٹو سے 'بھائی' تک: صابری خاندان کی سیاسی قوالیاں

امجد صابری کے والد اور چچا ہندوستان کے علاقے کلیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ دونوں بھائیوں نے پاکستان کی فلموں کے لیے بھی قوالیاں گائیں۔ ان کی پہلی فلمی قوالی ’’میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا‘‘ 1965ء میں فلم عشقِ حبیب کے لیے گائی گئی۔

1970ء میں فلم چاند سورج میں ان کی قوالی ’’محبت کرنے والو، محبت اس کو کہتے ہیں‘‘ شامل کی گئی۔ 1972ء میں فلم ’’الزام‘‘ میں ان کی قوالی ’’آئے ہیں تیرے در پہ‘‘ بے انتہا مقبول ہوئی۔ 1975ء میں فلم ’’بِن بادل برسات‘‘ میں ان کی قوالی ’’بھر دو جھولی میری یامحمد‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔

1976ء میں فلم سچائی میں ’’تیری نظرِ کرم‘‘ والی قوالی کو اتنی زیادہ شہرت نہ مل سکی، لیکن 1982ء میں بننے والی فلم 'سہارے'، جس میں مرکزی کردار اداکار محمد علی نے ادا کیا تھا، اس فلم کی قوالی ’’تاجدارِ حرم‘‘ نے قوال بھائیوں کی اس جوڑی کو عروج پر پہنچا دیا۔

سینیئر صحافی خالد فرشوری کے مطابق مقتول امجد صابری نے بھی اس فلم میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ اس فلم کے پوسٹر پر حاجی غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی تصویر بھی نمایاں طور پر شایع کی گئی تھی۔ ہمارا گمان ہے کہ اس قوالی کے دوران دونوں بھائیوں کے درمیان جو بچہ بیٹھا ہے وہ امجد صابری ہے۔ گو کہ اس فلم میں بہت سارے بچے ہیں۔

خالد فرشوری کا کہنا ہے کہ یہ فلم غلام فرید صابری نے بنوائی تھی۔ اگر آپ فلم میں اس قوالی کو تنقیدی نظر سے دیکھیں توابتداء میں تو مقبول اور غلام فرید دونوں نظر آتے ہیں لیکن تقریباً 40 سیکنڈ کے بعد کیمرہ صرف غلام فرید پر فوکس ہوجاتا ہے اور قوالی کی آخر تک ان ہی پر رہتا ہے۔ قوالی کا مکمل دورانیہ 9 منٹ 6 سیکنڈ ہے۔

صابری برادران کی وجہِ شہرت ان کی صوفیانہ قوالیاں رہی ہیں لیکن یہ دونوں بھائی صرف یہیں تک محدود نہ تھے، بلکہ ان کی ایک عشقیہ قوالی ’شب کو میرا جنازہ‘ بھی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی قوالی ’او شرابی چھوڑ دے پینا‘ مغربی اور مشرقی موسیقی کا ایک حسین امتزاج ہے

مقبول صابری کا ایک اور مشہور و معروف نغمہ جس پر ہندوستان و پاکستان کے سینیئر فنکاروں نے طبع آزمائی کی ہے وہ تھا۔

’’موہے آئی نہ جگ سے لاج میں اتنا،

زور سے ناچی آج کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے۔‘‘

اس کی دُھن بھی انہوں نے ترتیب دی تھی اور پہلی بار گایا بھی تھا لیکن اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں ملک میں جمہوری ادوار کے فروغ اور سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے لیے شاعروں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی دور میں شاعر سیاسی جلسوں میں اپنے انقلابی کلام کے ذریعے لوگوں کا خون گرماتے تھے اور بعض اوقات ان کے کلام سے امید کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی کہ لوگ سمجھتے تھے کہ بس انقلاب کی آمد آمد ہے اور آمریت کی روانگی۔

ان شعراء میں سب سے بڑا نام حبیب جالب کا تھا، اور فیض احمد فیض بھی شعراء کی اسی صف سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن شاعری صرف تحت اللفظ یا جوشِ خطابت تک ہی محدود تھی، گانے اور ترانے بنانے کا رواج ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ 70ء کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی نے ملک میں اقتدار سنبھالا تو پارٹیوں کے لیے موسیقی سے بھرپور ترانوں کا آغاز ہوا۔

اب تو عالم یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تو ایک طرف رہیں، مذہبی جماعتیں بھی نغموں اور ترانوں سے اپنی پارٹی کا پیغام عام کرنے میں مدد لیتی ہیں۔ آج کل پاکستان میں کام کرنے والی کون سی سیاسی پارٹی ہے جس کا سیاسی ترانہ نہ ہو، اور نامور گلوکاروں نے گایا نہ ہو۔

یہ 70ء کی دہائی تھی۔ اس دور میں پی پی پی کے ترانوں میں بھٹو صاحب کی شخصیت کو اجاگر کیا جاتا تھا، اس حوالے سے معروف نغمہ تھا ’’جیئے بھٹو جیئے بھٹو سدا ہی جیئے ذوالفقار علی بھٹو، سائیں سدا ہی جیئے‘‘ یہ سیاسی ترانہ بیک وقت بلوچی اور سندھی زبان میں تھا۔

جب اسے سننے والے پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں بھٹو صاحب سے محبت کا اضافہ ہوتا تھا۔ پی پی پی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں 80ء کی دہائی میں اسی روایت کو آگے بڑھایا اور اپنے کارکنوں میں جوش بڑھانے کے لیے کئی مقبول سیاسی ترانے دیے جن میں ’’مظلوموں کا ساتھی الطاف حسین‘‘ اب تک مقبول ہے۔ لیکن 80ء کی ہی دہائی میں پیپلز پارٹی کا ترانہ ’’دلاں تیر بجاں‘‘ آج بھی اتنا ہی مقبول ہے۔

پیپلز پارٹی شاید وہ پہلی پارٹی ہے جس نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے قوالی گانے والوں کی مدد بھی حاصل کی اور قوالی دھن پر پہلی بار ایک نغمہ عوام کی سماعت تک پہنچا جس کے بول تھے:

’’صدا رہے آباد، بھٹو زندہ باد، بھٹو زندہ باد

نگری نگری دھوم ہے اس کی

گلی گلی میں یاد، بھٹوبھٹو زندہ باد۔

صدیوں کے جذبات کا دھارا

مزدوروں کا ساتھی پیارا، ہر کس نے فریاد

بھٹو زندہ آباد، بھٹو زندہ آباد

جمہوریت کا متوالا، بستی بستی اس کا اجالا

ہر دل میں آباد، بھٹوزندہ آباد، بھٹو زندہ آباد

وطن کا قائد نام ہے اس کا، ایک رہو پیغام ہے اس کا

قوم ہے اس سے شاد، بھٹو زندہ آباد، بھٹو زندہ آباد

اس کے گانے والے کوئی اور نہیں امجد صابری کے والد غلام فرید اور چچا مقبول صابری تھے۔ صابری خاندان شروع سے آخر تک لیاقت آباد میں ہی رہائش پذیر ہیں، اور لیاقت آباد میں پی پی پی کا حلقہ اثر نہ ہونے کے برابر ہے، اس دور میں پی پی پی کے لیے یہ قوالی گانا بڑی جرأت کاکام تھا۔

امجد صابری نے اپنے والد اور چچا کی قوالی میں شروع کی جانے والی اختراعات کو جوں کا توں رہنے دیا اور روایت سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا۔ انہوں نے بھی ایک سیاسی قوالی گائی لیکن یہ پی پی پی کے جیالوں کے لیے نہیں، بلکہ متحدہ کے کارکنوں کے لیے تھی، جس کے بول درج ذیل ہیں:

جبر کے اندھیروں میں، زندگی گذاری ہے،

اب سحر جو آئے گی، وہ سحر ہماری ہے۔

جذبہ حق پرستوں کا انقلاب لائے گا

خون حق پرستوں کا اپنا رنگ دکھائے گا

نعرہ حق پرستی کا اس ظلم کو مٹائے گا

کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں

کل بھی جنگ جاری تھی اب بھی جنگ جاری ہے

ہم نے ایسے رُخ پھیرے آندھیوں کے طوفاں کے

دشمنوں کے ذہنوں پر ایک بھائی بھاری ہے

دشمنوں کے ذہنوں پر الطاف بھائی بھاری ہے۔

صابری برادران آرٹسٹ تھے، اور یہ ان کے فن کا نکتہء کمال ہے کہ انہوں نے جہاں حمد و نعت، مذہبی قوالیاں، اور منقبتیں پڑھیں، وہیں سیاسی قوالیوں اور فلمی گیتوں کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ غلام فرید صابری اور مقبول صابری کے انتقال کے بعد اس خاندانی فن کو امجد صابری نے مزید آگے بڑھایا۔

ان کے فن کو سیاسی عدسے سے دیکھنے کے بجائے صرف فن کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے، ورنہ فنکار کی ذات ہماری کوتاہ بینی کی وجہ سے محدود ہوجاتی ہے۔ بہرحال، یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان کی شہرت صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ دنیا بھر میں ان کا چرچا تھا اور رہے گا۔

ان کی وفات بلاشبہ نہ صرف ملک، بلکہ دنیا بھر میں فنِ قوالی کو ایک بہت بڑا دھچکا ہے، اور اس سے پیدا ہونے والا خلا جانے کیسے اور کب پورا ہوگا۔

آپ بھی بتائیے: آپ کے نزدیک صابری برادران کی سب سے بہترین قوالی کون سی ہے؟ تاجدارِ حرم، بھر دو جھولی میری یا محمد، یا کوئی اور جو یہاں درج نہیں۔ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔

Read Comments