بلوچستان میں مزری ترقی کا اہم ذریعہ
مزری کو بلوچ اپنی زبان میں ’’پیش‘‘ کہتے ہیں۔ جبکہ اسکا سائنسی نام (Nonnorrhopsritchieana) ہے۔ یہ ایک خودرو پودا ہوتا ہے اور بلوچستان کی زمین اس کی پیداواری کثرت کے لئے بے حد مشہور ہے۔
اس پودے کا انحصار بارانی پانی پر ہوتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں اس کی پیداوار سالانہ 27265 ٹن ہوتی ہے جبکہ 65 ہزار افراد کا روزگار اس سے جڑا ہے جن میں خواتین کی تعداد 78 فیصد ہے۔ یعنی بلوچستان میں کشیدہ کاری کے بعد مزری یہاں کی عورتوں کے ذریعہ معاش کو سہارا دینے والا دوسرا بڑا شعبہ ہے۔
بلوچستان جہاں لوگوں کے لئے ذریعہ معاش کا ذریعہ غلہ بانی، کھیتی باڑی ہیں، تو وہیں یہ مزری بھی کسی بڑے نعمت سے کم نہیں۔
بلوچستان جسے ثقافتوں کا امین بھی کہا جاتا ہے تو اس مزری کا استعمال ثقافتی طور پر بھی کیا جاتا ہے۔
بلوچستانی عوام رہائش کے لئے کچی عمارتوں کے ساتھ ساتھ جھونپڑیوں کا سہارا لیتے ہیں تو جھونپڑی کے لئے جس چیز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ ہوتی ہے مزری کے پتے جنھیں خشک کرنے کے بعد جھونپڑی کی تعمیر کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
مزری کی پیداوار پہاڑی علاقوں میں زیادہ تعداد میں ہوتی ہے۔ مزری کے انہی پتوں کو خشک کرکے چٹائی، جھاڑو، ہاتھ کے پنکھے، جائے نماز، ٹوپیاں، ٹوکریاں (سپت)، رسی وغیرہ بنائے جاتے ہیں، جنھیں یا تو گھریلو استعمال کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے یا انھیں کراچی یا دیگر شہروں کو بیچنے کے لئے بھیجا جایا جاتا ہے۔
مزری سے بننے والی رسی بلوچوں کے ہاں دیسی چار پائی بنانے کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہے، اس کے علاوہ یہاں کے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مزری سے بے شمار چیزیں ایجاد کیں۔
بلوچی چپل ’’سواس‘‘ اسی مزری سے بنائی جاتی ہے اور کسان اس مزری سے بننے والی چپل کو شوق سے پہنتے ہیں، جبکہ مزری سے بننے والی چٹائی کو لوگ گھروں کے استعمال میں لاتے ہیں اور یہ ساری چیزیں ان کی اپنی ایجادات ہیں جنھیں یہ اپنی ذریعہ معاش اور گھریلو استعمال میں لانے کے لئے استعمال میں لاتی ہیں۔
مزری کے پودوں کا قد زیادہ بڑا نہیں ہوتا اس لئے اس کے پتوں کی کٹائی کرتے وقت کاشتکاروں کو زیادہ زحمت اٹھانی نہیں پڑتی۔ کٹائی کا کام زیادہ تر مرد حضرات کے سپرد کیا جاتا ہے جبکہ بننے کا کام خواتین کرتی ہیں۔ گو کہ اس سے آنے والی آمدن بہت کم ہوتی ہے لیکن دیہی علاقوں میں معاش کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی خواتین اس شعبے سے وابسطہ ہو جاتی ہیں۔
بلوچستان جہاں ذراعت اور غلہ بانی کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں رہی ہے تو وہیں مزری کے پیداوار، اس کے بہتر استعمال، مٹیریل کو مارکیٹ تک پہنچانے یا اس کے لئے بلوچستان کی سطح پر مارکیٹ بنانا اور انھیں ٹریننگ مہیا بھی نہیں کئے جاتے۔
آواران سے تعلق رکھنے والی خاتون شراتوں کے گھر کا گزر بسر اسی مزری سے وابستہ ہے۔
وہ آواران سے ٹوکری، چٹائی، بلوچی ٹوپی اور دیگر اشیا بنا کر کراچی فروخت کے لئے بھجواتی ہیں۔
اپنے کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’’شروع شروع میں ہمیں مزری کی اہمیت کا اتنا اندازہ نہیں تھا لیکن ایک مقامی این جی او نے ہمیں اس کی اہمیت و افادیت اور ہنر کے ذرائع سکھائے۔ ایک اور ادارے کی جانب سے ہمیں اسلام آباد 15 دن کے ٹریننگ کے لئے لے جایا گیا اور اس ٹریننگ سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔ پہلے پہل لوگ مزری کو کاٹ کر کراچی سستے داموں بیچتے تھے لیکن اب لوگوں میں شعور آگیا ہے۔ وہ مزری سے مختلف قسم کی چیزیں بناتے ہیں، جنھیں مارکیٹ میں اچھے داموں فروخت کرکے وہ اپنا ذریعہ معاش چلا سکتی ہیں‘‘۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر مارکیٹ تک ان کی رسائی بہتر طریقے سے ہو اور انہیں حکومتی سطح پر مزری کے مشینری مل جائیں تو خواتین کے لئے روزگار کا اہم ذریعہ ہاتھ آسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک حکومتی سطح پر اس قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جا چکے ہیں۔
سردیوں کے موسم میں مزری کے پودے سے ایک خاص قسم کا پھل جسے بلوچی زبان میں ’’کونر‘‘ کہتے ہیں نکل آتا ہے۔ جسے خشک کرکے خشک میوے کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مزری کے پودے سے ایک اور خوراک ’’کوش‘‘ بھی نکلتا ہے۔ جسے لوگ شوقیہ طور پر کھاتے ہیں۔
نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (NRSP)کی جانب سے سسٹینبیل لینڈ منیجمنٹ پروجیکٹ (SLMP) جو کہ حکومت بلوچستان اور یو این ڈی پی کے تعاون سے آواران میں لانچ کیا گیا تھا۔
اس پروجیکٹ کے تحت آواران کے دس علاقوں کا انتخاب کیا گیا جہاں نہ صرف لوگوں کو مزری کی افادیت اور اس کے کاشت کے حوالے سے ٹریننگ دی گئی بلکہ اس کی بے جا استعمال کی روک تھام کے لئے مختلف جگہوں پر اس کی نرسری پر بھی کام کیا گیا۔
لوکل سپورٹ پروگرام سچکان کے صدر مقبول وفا اس حوالے سے کہتے ہیں۔ ’’این آر ایس پی کی جانب سے ہمیں دس روزہ ٹریننگ کے لئے رحیم یار خان لے جایا گیا وہاں ہمیں مزری کے لئے استعمال ہونے والی مشینری کے بارے میں آگاہی ملی جو ہمارے لئے ایک نئی چیز تھی۔ ٹریننگ کے اختتام پر ہمیں ادارے کی جانب سے مشینری بھی مہیا کیے جانے کا فیصلہ کیا۔ جنھیں آواران میں اچھے انداز میں آزمایا جا سکتا تھا لیکن بجلی نہ ہونے کے سبب ان سے کام نہیں لیا جا سکا۔ جو اب ناکارہ پڑے ہوئے ہیں‘‘۔
مقبول وفا کا کہنا ہے کہ مزری سے بننے والی اشیاء کو مختلف علاقوں میں بیچا جاتا ہے اور اس کی ضرورت ہر جگہ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی مارکیٹ نہ ہونے کے سبب عوام میں اس کی اہمیت کا اندازہ بہت کم لگایا جاتا ہے۔
این آر ایس پی کے ڈسٹرکٹ پروگرام آفیسر سراج احمد کا کہنا ہے ’’پشاور میں باقاعدہ بڑے بڑے کارخانے بنے ہوئے ہیں جو کہ مزری سے مختلف اشیاء بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹھٹھہ میں بھی مزری کا کاروبار ہوتا ہے جہاں لوگوں کا ذریعہ معاش اسی سے وابستہ ہے۔ ہمارے اس پروگرام کا مقصد لوگوں کو مزری کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا تھی تاکہ وہ اس کا بہتر طریقے سے استعمال کریں، ہم نے اپنے ادارے کے توسط سے آواران کے مقامی لوگوں کو ٹریننگ دینے کے لئے ان علاقوں کا سروے کرایا ہے۔ جن سے یہاں کے لوگوں میں آگاہی آئی ہے کہ وہ مزری کو اچھے طریقے سے استعمال کر سکیں‘‘۔
بلوچستان مزری کی پیداوار کے حوالے سے اہم خطہ تصور کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں کھیتی باڑی اور غلہ بانی کے ساتھ ساتھ یہ شعبہ بھی لوگوں کے ذریعہ معاش میں بہتری لا سکتا ہے۔
بلوچستان کی حالیہ بجٹ میں جہاں بڑے بڑے اعلانات کئے گئے تھے تو وہیں غلہ بانی، زراعت کے ساتھ ساتھ مزری کے شعبے کو بھی مکمل نظرانداز کردیا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں اس شعبے کو صنعتی درجہ دیکر عوامی مالی مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔