ایک پاکستانی اور ہندوستانی کی بیرونِ ملک دوستی
وہ دسمبر 1966 کی ایک سرد، نم اور افسردہ سی دوپہر تھی جب میں نے سابقہ چیکوسلوواکیا، جو کہ اب جمہوریہ چیک اور سلوواکیا میں تقسیم ہو چکا ہے، کے دارالحکومت پراگ کے ایئرپورٹ پر لینڈ کیا۔
میں حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے فارغ التحصیل ہوا تھا اور یہ میرا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ اس سے پہلے میں کبھی جہاز پر سوار نہیں ہوا تھا۔
مجھے کافی سردی بھی لگ رہی تھی اور انتہائی خوفزدہ بھی تھا۔ میں ہوشیاری کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے ایئر پورٹ سے راستہ بناتے باہر نکلا۔ کمیونسٹ حکومت کے پاس اس ایئرپورٹ کی تعمیرِ نو کے بجائے کسی اور جگہ نیا چمچماتا ہوا ایئرپورٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا تاکہ دنیا کو متاثر کیا جاسکے۔
میں پراگ میں یہاں کے خبر رساں ادارے سیٹیکا (CETEKA) میں 5 ماہ تربیت کی غرض سے اسکالرشپ پر آیا ہوا تھا۔ ہمارا ادارہ پراگ سے کچھ میل دور ایک چھوٹے سے شہر روزتیز میں ایک ولا میں واقع تھا، جسے وہ اپنی آبائی زبان میں زیمیک کہتے ہیں (امید ہے کہ یہ تفصیلات آگے کام آئیں گی۔)
وہ ایک دو منزلہ سرد عمارت تھی اور قریب ترین ریلوے اسٹیشن بھی دو میل کی مسافت پر واقع تھا۔ اسٹیشن پر پہنچنا بالکل بھی آسان نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس کے لیے ایسے گاؤں سے گزرنا پڑتا تھا جہاں پر باغی موجود ہوتے تھے۔
ہم سچ مچ دنیا سے کٹ گئے تھے؛ میرا خیال ہے کہ وہاں موجود کامریڈز بھی یہی چاہتے تھے۔ ویزا کے مسائل کی وجہ سے میں 15 دن بعد وہاں آیا تھا مگر جب روزتیز پہنچا تو وہاں ایک خوشگوار حیرت انگیز بات ہوئی۔
ڈورس ڈے جیسی دِکھنے والی ہماری ڈائریکٹر مسز شٹولسووا نے مجھے بتایا کہ 'آپ کا دوست آپ کا انتظار کر رہا ہے۔'
میرا دوست وہ بھی چیکوسلوواکیا میں؟
ڈائریکٹرز روم میں کراچی، پاکستان سے تعلق رکھنے والا کالی شیروانی میں ملبوس دبلا پتلا اور عینک پہنے عبدالسبحان میرا انتظار کر رہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا تعلق پاکستان نیوز ایجنسی سے تھا۔ بہرحال میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ ادارہ اب بھی موجود ہے یا نہیں۔