گیس پائپ لائن منصوبوں پر کام کرنے والے اعلیٰ عہدے دار برطرف
اسلام آباد: حکومت نے گیس پائپ لائن منصوبے کے چیئرمین اور خود مختار ممبر کو برطرف کردیا۔
15 ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والے گیس پائپ لائن منصوبے کی شفافیت پر سوال اٹھانے پر چیئرمین اور خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر کو ان کے عہدوں سے برطرف کردیا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزارتِ پیٹرولیم نے منصوبے کے حوالے سے بورڈ کے 9 ممبران میں شامل چیئرمین نوابزادہ شہزاد اے خان اور ممبر زبیر موتی والا کو نامناسب انداز میں ان کے عہدوں سے برطرف کیا، وزارت نے ممبران کو برطرف کرنے کا تحریری جواز منصوبے کی کارروائی میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے فیصلے کو قرار دیا۔
وزارت اور اس کے ماتحت کمپنیز کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے ذریعے بورڈ ارکان کی تعداد کو کم کر کے 7 کردیا گیا۔
دونوں افراد کی جانب سے منصوبے کی شفافیت پر سوال اٹھانے پر انھیں برطرف کیے جانے پر وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے۔
یہ بھی پڑھیں : پاک۔ ایران گیس پائپ لائن میں اہم پیشرفت
ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم (آئی ایس جی ایس) پرائیوٹ لمیٹڈ کی پچھلی کئی بورڈ میٹنگز کی سربراہی موجودہ چیئرمین ہی کر رہے تھے، جبکہ کچھ ممبران کی مددت ختم ہونے کے باعث بورڈ کی دوبارہ تشکیل دی جائے گی۔
شفافیت اور ریکارڈ میں ردوبدل کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر آئی ایس جی ایس کے مینجنگ ڈائریکٹر کواس بارے میں مجھ سے رابطہ کرنا چاہئیے۔
جبکہ دوسری جانب بورڈ کے چیئرمین شہزاد اے خان نے وزارتِ پیٹرولیم کی جانب سے ان کی برطرفی کے لیے جاری ہونے والے مبینہ خط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے اور اہم فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے مینجنگ ڈائریکٹرز سے اجازت لینا ہوگی۔
شہزاد خان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی جانب سے وزارت کو لکھے گئے خط کے مطابق انہوں نے دونوں ممبران کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے اقدام اٹھانے کے لیے کہا ہے۔
اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ گوادر سے نواب شاہ تک کا یہ منصوبہ 850 کلو میٹر طویل ہے جس کی لاگت 4.7ارب ڈالر ہے اور دوسرا منصوبہ کراچی سے لاہور جو کہ 710 کلو میٹر طویل ہوگا، کو غیر ملکی قرضوں سے پورا کیا جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو 20.3 ارب ڈالرز 20 سال تک ادا کرنے ہوں گے، جس میں گیس کی سپلائی 600 ارب کیوبک فٹ ایک دن میں ہوگی۔
شہزاد اے خان نے اس حوالے سے مزید کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کا افتتاح 2013 میں کیا گیا، جس کے بارے میں آئی ایس جی آئی بورڈ کو معلومات فراہم نہیں کی گئیں، جس کے بعد اس منصوبے کو بغیر کسی تکنیکی و اقتصادی مشکلات کے گوادر اور نواب شاہ منصوبے میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں : تاپی گیس پائپ لائن کا منصوبہ 2017 میں مکمل ہوگا
اس حوالے سے ایک وکیل خالد انور ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے جن کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کی گئیں وہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے لیے بھی کام کر رہے تھے، ساتھ ہی انھیں بغیر کسی اجازت کے گوادر نوابشاہ منصوبے کا حصہ بھی بنایا گیا۔
شہزاد خان نے منصوبے کے حوالے سے مزید کہا کہ منصوبے کوجلد بازی میں شروع کیا گیا جس کے لیے زمین کی خریداری کے لیے باقاعدہ نیلامی بھی نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاک ایران منصوبے کی غیر موجودگی میں گوادر نوابشاہ گیس پائپ لائن منصوبے کو شروع کرنے کا کوئی جواز نہیں پیدا ہوتا، جس کے بر عکس اس سے کراچی کا منصوبہ کم بجٹ کا ہوتا، بظاہر تمام عمل داغدار دکھائی دیتا ہے۔
شہزاد خان کا کہنا تھا کہ دارالحکومت میں شمال جنوب پائپ لائن منصوبے کی لاگت 2.2 ارب ڈالر ہے جس کے سالانہ اخراجات 526 ارب ڈالر ہوں گے، جس کے ادائیگی عوام 20 سالوں میں 10.5 ارب ڈالر ادا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ گیس پائپ لائن پروجیکٹ اربوں ڈالر کا منصوبہ ہے، جس کے لیے درکار رقم کا تخمینہ تکینیکی اور تمام معاملات کی شفافیت کی جانچ کے بعد کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے کچھ خامیوں کی نشاندہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں کی گئی تھی، مگر ان کی جانب سے خامیوں کی نشاندہی کو دیکھنے کے بجائے ان کا غیر قانونی طریقے سے بورڈ ممبرز کے عہدے سے برطرف کردیا گیا، جو کہ ایسوسی ایشن آف کمپنی کےقانون کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ترکمانستان نے تاپی منصوبے پر کام شروع کردیا
اس سے قبل شہزاد خان نے 10 اگست کو بورڈ کے 100 ویں اجلاس میں تجاویز منظوری کے لیے رکھی تھیں جن کی منظوری نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کا یہ پہلا واقع نہیں تھا، اس سے پہلے بھی 99 ویں اجلاس میں بھی پیش کی گئی تجاویز کو بھی منظور نہیں کیا گیا اور نہ ہی بورڈ کے 84 اجلاس میں ان کی تجاویز پر غور کیا گیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ آئی ایس جی کے افسران حکومت کی دو مختلف کمپنیز کے لیے بھی کام کر رہے تھے جس کی کوئی اجازت نہیں لی گئی اور ساتھ ہی یہ افسران بورڈ سے بھی تنخواہ حاصل کر رہے ہیں، ان تمام ممبران کی غیر معمولی تنخواہیں بورڈ کے کسی بھی قسم کے اجازت نامے کے بغیر طے کی گئیں، منصوبے کے لیے لی گئی خطیر رقم 2.55 ارب روپے اب تک خرچ نہیں کیے جا سکے۔
آئی ایس جی ایس کے مینجنگ ڈٓائریکٹر مبین صولت اس بارے میں کہتے ہیں کہ بورڈ کے معاملات میں کی جانے والی خرابی قابل قبول نہیں ہے یہ تمام معاملات ریکارڈ کیے جاتے ہیں، بورڈ میٹنگ کے منٹس کو آخر میں بورڈ ممبران کی جانب سے کلئیر کرنے کے بعد چئیرمین ہی منظور کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 99 ویں اور 100 ویں اجلاس میں منٹس کو بورڈ کے سامنے منظوری کے لیے پیش نہیں کیا گیا، جس کے بارے میں بورڈ حکومت سے بات کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ بورڈ کی دوبارہ تشکیل موخر کر دی گئی ہے، تمام کمپنیز اور بورڈ کا اختیار کچھ مہینوں سے وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
مبین صولت نے کہا کہ ان کا شہزاد خان سے گذشتہ کئی سالوں سے تعلق تھا جبکہ وہ پاک ایران اور ترکمانستان،افغانستان ،ہندوستان پائپ لائن اور دیگر منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک منصوبے بورڈ ممبران کی مشاورت سے کئی سنگ میل عبور کر چکے ہیں، اس سے قبل شہزاد خان نے کسی قسم کے اعتراضات بورڈ کے سامنے پیش نہیں کئے۔
یہ رپورٹ 19 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی