Dawn News Television

اپ ڈیٹ 24 اگست 2016 12:40am

سبحان کی تلاش: ایک پاکستانی اور ہندوستانی کی بیرونِ ملک دوستی

یہ دو حصوں پر مشتمل سیریز کا آخری حصہ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیے۔


50 سال گزر جانے کے بعد دو دوستوں کو اس طرح تو نہیں ملنا چاہیے۔

پچھلے سال یورپ میں چھٹیوں کے دوران میں وینسزلاس جیسی شاندار جگہ کے ارد گرد گزرے دنوں کی یاد میں پیدل چل رہا تھا۔ میرا ذہن پھر سے 68-1967 کے دور میں لوٹ جاتا جب میں نے 20 افراد کے ہمراہ پراگ سے باہر ایک چھوٹے شہر میں قیام کیا تھا۔

مگر میرے ذہن میں صرف ایک ہی نام گردش کر رہا تھا: سبحان

میں اسی چوراہے پر تھا اور کنگ وینسیزلاس کے اسی مجسمے کو دیکھ رہا تھا جہاں ہم دو دوست اپنا وقت گزارنے کی غرض سے بے مقصد ادھر اُدھر بٹھکتے پھرتے تھے۔

ہمارے گروپ میں مختلف ممالک کے لوگ شامل تھے مگر اس پورے گروپ میں ہماری دوستی — ایک پاکستانی اور ہندوستانی کا انوکھا جوڑا — سب سے واضح نظر آتی تھی۔ ہم ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم بن چکے تھے۔ جلد ہی گروپ کے باقی افراد پر یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ طویل سفر میں بس میں میرے برابر والی سیٹ ہمیشہ عبدالسبحان کے لیے مختص ہوتی تھی۔

لکھاری (دائیں) عینک پہنے سبحان (بائیں) کے ساتھ۔

ان دنوں اس ویران زیمک (ولا) سے باہر آنا ہمیشہ ہی ہم دونوں کے لیے تسکین کا باعث بنتا تھا۔ ہم دونوں کا یہی حال تھا کیونکہ ہم دونوں ایسے معاشرے سے آئے تھے جہاں ہم مسلسل اپنے دوستوں اور گھر والوں سے گھرے رہتے ہیں، ہمیں اپنے آس پاس لوگوں کو دیکھ کر تسلی سی مل جاتی تھی۔

اتنے سالوں بعد پھر سے اس چوراہے پر پیدل چلتے وقت بے چینی کی واحد وجہ سبحان کی غیر موجودگی نہیں تھی، بلکہ میں نے محسوس کیا کہ پراگ خود بھی بہت بدل چکا ہے۔

کمیونسٹ دور کی خستہ حال دکانوں کی جگہ اب جدید برانڈز لے چکے ہیں۔ اب وہاں پرانے لڑکھڑاتے ٹرام نہیں چلتے تھے؛ اس کے بجائے دو ٹراموں کو کھڑا کر کے ریستورانوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

یہی وہ دورہ تھا جس کے بعد میں نے سبحان سے ایک بار پھر رابطہ کرنا چاہا۔

میں نے سوچا تھا کہ ہمارے ملکوں کے درمیان تعلقات کے پیش نظر ہماری ملاقات کبھی بھی نہیں ہو پائے گی۔ مگر پھر بھی چونکہ سبحان ایک ذہین اور خوش طبیعت انسان ہے، میں اس سے ای میل کے ذریعے ایک زبردست گفتگو کی امید کر رہا تھا۔ مگر قدرت بے رحم بھی تو ہوسکتی ہے۔

غیر متوقع ملاپ

زندگی کی 7 دہائیوں کا مطلب ہے کہ آپ کو ہمیشہ کسی ناخوشگوار دن کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ مگر بات جب مدتوں سے بچھڑے دوستوں اور رشتہ داروں کی آئے تو پھر آپ کو ہمیشہ بہتر کی امید رہتی ہے۔

جب ہم پراگ سے لوٹے تھے، تو اس کے فوراً بعد ہم نے ایک دوسرے سے خطوط کا تبادلہ کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سبحان نے ایک خط میں اپنی عنقریب منعقدہ شادی کا تذکرہ کیا تھا۔ چونکہ ان دنوں کسی سے رابطہ رکھنا بہت ہی مشکل ہوتا تھا اس وجہ سے ہماری خط کتابت بھی جلد ہی دم توڑ گئی تھی۔

جب میں نے اسے دوبارہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے یاد آیا کہ میری بیٹی ڈان ڈاٹ کام کے لیے مضامین لکھ چکی ہے، سو میں نے بھی وہیں سے شروعات کی۔ میں نے ہماری دوستی کے حوالے سے ایک مضمون لکھ کر ان کو بھیج دیا اور یہ توقع کی کہ ہوسکتا ہے سبحان کا کوئی جواب موصول ہوجائے۔

مجھے جواب تو موصول ہوا مگر میں ایسے جواب کی امید نہیں کر رہا تھا۔

سبحان کے بجائے اس کے بھتیجے نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ سبحان کافی بیمار ہے لیکن شکر ہے کہ، ''ابھی تک جدا نہیں ہوئے۔''

''ابھی تک'' کے لفظوں نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ مگر ان الفاظ کے پیچھے ایک درد چھپا تھا۔ میں اس بات کا کوئی بھی مطلب اخذ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کے بھتیجوں نعمان اور سلمان نے بتایا کہ سبحان پچھلے 8 سالوں سے مفلوج ہے اور وہ مکمل طور پر بستر سے جا لگا ہے۔

میں یہ سن کر بھونچکا رہ گیا۔ میں کئی سالوں سے بستر پر پڑے سبحان کا تصور بھی نہیں کر پا رہا تھا۔

کیا میرا دوست اس قدر تکلیف میں تھا؟

سلمان نے مجھے بتایا کہ اس نے ڈان ڈاٹ کام پر شایع ہونے والا میرا مضمون سبحان کو پڑھ کر سنایا تھا۔ سلمان نے بتایا کہ ''وہ آپ کی کہانی سن کر بہت روئے۔'' مجھے اس بات سے حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ ظاہر ہے ہم ایک دوسرے سے اتنے ہی قریب تھے۔ میرا دوست بول نہیں سکتا تھا لیکن 50 سال بعد میں اسے اب بھی یاد تھا۔ ایک لاچار آدمی رونے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے؟

مگر ایک بدترین بات اب بھی باقی تھی۔ سلمان نے مجھے ایک تصویر اور ایک مختصر وڈیو بھیجی۔ اس میں مجھے اپنے پرانے دوست کو پہچاننا بھی مشکل ہو رہا تھا جو کبھی اپنی بھرپور زندگی جیتا تھا، ہمیشہ متحرک اور دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتا۔ اس کے بجائے میں نے سبحان کو شیو کے بغیر اور بکھرے بالوں کے ساتھ بستر پر لیٹا دیکھا، مکمل طور پر گم صم۔

لکھاری عبدالسبحان کے ساتھ۔

میں نے اور میری بیوی نے کراچی میں سبحان کی اہلیہ سے فون پر بات کی۔ اس خوش اخلاق خاتون نے ہمیں کراچی آنے کی دعوت دی۔ میں وہاں جانے کی منصوبہ بندی کرنے کی امید کر رہا تھا اور حتیٰ کہ اپنے مسترد شدہ ویزا پر لڑنے کے لیے بھی تیار تھا، مگر اب مجھے یقین نہیں کہ مجھے میں یہ کوشش کرنے کی ہمت ہے بھی یا نہیں۔

میں نے اپنے دوست سے پہلے رابطہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اگر میں یہ کہوں کہ میں خود سے مایوس تھا، تو یہ چھوٹی بات ہوگی۔ حقیقت میں میں خود کو لاچار محسوس کر رہا تھا۔ انسان ہمیشہ یہی سوچتا ہے کہ یہ چیزیں دوسروں کے ساتھ ہوسکتی ہیں لیکن آپ کے اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں۔ میں نے اپنے دوست کو صرف یہ جاننے کے لیے تلاش کیا تھا کہ ہم دہائیوں کے بعد ایک سادہ سی گفتگو بھی نہیں کر سکتے تھے۔

میں صرف یہ ہی کہہ پایا کہ "بہت تکلیف ہوئی۔" کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ مجھے اپنے دوست کی تلاش کے لیے ایسی کوشش بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

پھر پرانی یادوں کا سمندر دوبارہ بپھر چکا تھا۔ ہم ساتھ پڑھے؛ ساتھ مسافتیں کیں؛ جب بھی کہیں دوسری جگہ گئے تو ہمیشہ ساتھ ہوٹل کا کمرہ شیئر کیا۔ چیکوسلوواکیا سے مشرقی جرمنی، وہاں سے سوویت یونین تک ہمارے ایڈوینچرز؛ ہماری طویل داستانیں جن کا ہم خاموش راتوں میں تبادلہ کرتے تھے۔۔۔ سبحان اور میں۔۔۔۔ یہ تمام یادیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔

جالندھر آنے کی دعوت

یہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ تقسیمِ ہند کے دوران جب ہمارے خاندان نے لاہور سے ہجرت کی تو ہم جالندھر منتقل ہوئے۔ ہمارا گھر، جو کسی جسٹس حق کی ملکیت تھا، ایک عالی شان اور وسیع و عریض بنگلہ ہے جس میں الگ الگ مردانہ اور زنانہ حصے ہیں اور تاریخی گھروں کے جیسا مخصوص سبزہ زار بھی ہے۔

صحن میں میرے بچوں کے بھی بچے آم اور جامن کے ان تناور درختوں کے گرد دوڑتے رہتے ہیں جو آج بھی ہمیں پھل دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ وہاں ایک کنواں، مرغی خانہ اور ایک قبرستان بھی تھا مگر ان تینوں حصوں کو بیچ دیا گیا تھا۔

1950 کی دہائی میں کہیں میرے والد کو یاد ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کے سامنے ایک نفیس شخص کو کھڑے دیکھا تھا۔ انہوں نے خود کو جسٹس حق بتایا اور اس گھر میں اندر آگئے جو کبھی ان کا گھر تھا۔ جب وہ وہاں سے جا رہے تھے تب میرے والد نے ان سے دوبارہ وہاں آنے کو کہا پر جسٹس حق نے ایماندارانہ انداز میں جواب دیا کہ: "میں تو آنا چاہتا ہوں مگر میرے بیٹے نہیں چاہتے۔''

جس طرح میں نے سبحان کے ساتھ کیا، اسی طرح میں یہ کہنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتا کہ اگر حق فیملی سے کوئی بھی اس مضمون کو پڑھ رہا ہو تو میں ان کو ان کا اپنا پرانا گھر دیکھنے کی دعوت دیتا ہوں، ان کے لیے ہمارے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔ ہم نے اب بھی قبرستان کو چھوڑ کر گھر کی نمایاں خصوصیات کو ویسا ہی رکھا ہے۔

سبحان پر میرے گزشتہ مضمون نے کئی پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے دلوں کو چھوا مگر اس طرح مجھے یہ بات بھی پتہ چلی کہ یہ صرف میری ہی کہانی نہیں ہے۔

کئی خاندانوں کے پاس شیئر کرنے کے لیے ایسے ہی تجربات ہیں کہ برصغیر کے باہر ہندوستانی اور پاکستانی بہترین دوست بن کر رہتے ہیں، مگر یہاں ہمارے اپنے ملکوں میں ماحول ناسازگار ہے۔

میرے پچھلے مضمون پر ایک پڑھنے والے کمال پاشا نے تبصرے میں غیر منقسم برِصغیر کی خواہش ظاہر کی۔ میں اپنے پیارے پاشا کو بتانا چاہوں گا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ دونوں ملکوں کے راستے اس قدر الگ ہیں کہ اب دونوں ساتھ نہیں مل سکتے۔

لیکن جو کام ہم کر سکتے ہیں، وہ یہ کہ اچھے پڑوسی بن کر رہیں، تاکہ مستقبل میں سرحد پار کسی چندر موہن کو اپنے کسی پیارے سبحان سے رابطہ کرنے میں 50 سال نہ لگ جائیں۔

Read Comments