محبت کی شادی کا مذہبی فارمولا
جبری مذہب تبدیل کروانے کا مسئلہ سندھ میں غیر مسلموں، خصوصاً ہندو اکابرین اور تنظیموں کی جانب سے اکثر اٹھایا جاتا ہے۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ جب کسی امیر ہندو گھرانے کی لڑکی مسلمان ہوجائے تو اونچی ذات کے ہندو اس پر بہت سخت احتجاج کرتے ہیں جبکہ اگر مسئلہ کسی دلت برادری (جنہیں اچھوت ہریجن اور شیڈول کاسٹ کہا جاتا ہے، ان میں تین بڑی برادریاں کولہی، بھیل، میگھواڑ شامل ہیں) کی لڑکی کا ہو تو یہ آواز دھیمی ہوتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے۔ اکثر چھوٹی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ایسے معاملات پر شدید احتجاج کرتے ہیں۔
سینیئر صحافی امر گُرڑو جو اقلیتی برادری کے مسائل پر رپورٹنگ کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ دلت یا چھوٹی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کے مسائل کی تشہیر اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ اس کے لیے میڈیا اور عدالتوں میں مہم چلانی پڑتی ہے جس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔
دلتوں کے پاس پیسہ تو خیر ہے ہی نہیں لیکن پاکستان کی قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھی ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پڑھیں: سندھ کی دلت تحریک پر اعتراضات کیوں؟
اس وقت ان تمام اداروں میں اقلیتوں کی مخصوص 32 نشستیں ہیں، جن میں سے 19 ہندو ہیں۔ ان 19 میں سے 17 کا تعلق اونچی ذات کے ہندوؤں سے ہے اور اچھوتوں کے صرف دو نمائندے ہیں جن میں سے ایک ڈاکٹر کھٹو مل جیون اور دوسرے گیان چند ہیں۔ دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آباد ہندوؤں کا 80 فیصد طبقہ دلت یا چھوٹی ذات کے ہندوؤں پر مشتمل ہے، اس لیے جب بھی کسی اعلیٰ ذات کی لڑکی مذہب تبدیل کرتی ہے تو قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں اس معاملے پر آواز اٹھانے کے لیے 17 اراکین ہوتے ہیں جبکہ اچھوتوں کے نہ ہونے کے برابر۔
اقلیتوں کے مسائل اسی صورت میں حل ہو سکتے ہیں جب ہندوؤں کے نمائندوں کے انتخاب کو ووٹ سے مشروط کیا جائے. وگرنہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر مالدار ہندو سیٹھ منتخب ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
صحافی محسن سومرو کے مطابق ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہندو مت سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے، جو اسلام قبول کرتی ہیں۔ ان کی اپنے علاقے کے کسی مسلمان لڑکے سے فوراً شادی بھی ہوجاتی ہے اور پھر معاملہ عدالت تک پہنچ جاتا ہے اور 99 فی صد واقعات میں لڑکی اپنے شوہر کے حق میں بیان دے کر سسرال چلی جاتی ہے۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ 99 فیصد کیوں؟ ہاں ہماری معلومات کے مطابق ایک کیس ایسا ہے جس میں بھری عدالت میں لڑکی نے اسلام اور شادی سے انکار کیا اور اُس کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے تھا۔
سینئر صحافی اور کرائم رپورٹر قادر لاشاری کے مطابق جو لوگ پسند کی شادی کرتے ہیں خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ان کا سب سے بڑا مسئلہ تحفظ کا ہوتا ہے۔
تاہم وہ اپنے تحفظ کے لیے بااثر افراد اور انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جو بھی ہندو خواتین پسند کی شادی کرتی ہیں وہ تحفظ کے لیے بااثر مذہبی پیشواؤں کی پناہ لیتی ہیں۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اس پر ایک گہری تحقیق درکار ہے۔
30 جولائی کو اتوار کا دن تھا۔ اس دن کراچی بھر کے تمام کتاب گزیدہ صُبح سویرے ریگل چوک پہنچ جاتے ہیں ان میں صحافیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ معدودے چند کے جن مین الطاف، مجاہد اور اسلم سولنگی نمایاں ہیں۔
اسلم سولنگی ایک مزے دارشخصیت کے مالک ہیں۔ گلستان جوہر سے ریگل تک کے طویل سفر طے کرنے کے دوران ہم پریس کلب پر وقفہ کرتے ہیں۔ کچھ دیر اپنے اوسان بحال کرنے اور ٹھنڈا پانی پینے کے بعد ریگل روانہ ہوجاتے ہیں۔
پڑھیں: کیا سندھ میں دلت تحریک کی ضرورت ہے؟
یہ کہانی لکھنے کا خیال مجھے کیوں آیا؟ دراصل اس اتوار کو ہم ریگل جانے کے لیے پریس کلب کے گیٹ پر پہنچے ہی تھے کہ اسلم سولنگی نے ہمیں روک کر ایک نوجوان لڑکے اور برقعہ پوش لڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
ہم سمجھ گئے کہ یہ پسند کی شادی کا معاملہ ہے۔ ایسے معاملات میں لڑکا لڑکی کو سندھی اخبارات ’’پریمی جوڑو‘‘ لکھتے ہیں۔ خبر مخصوص ہوتی ہے جو غالباً کراچی میں کوئی ایک ہی شخص لکھتا ہے۔
حاصل خبر یہ ہوتا ہے کہ لڑکے لڑکی نے پسند کی شادی کی ہے۔ اب انہیں خطرہ ہے کہ انہیں ’’کارو کاری‘‘ قرار دے کر جان سے مار دیا جائے گا۔ میں آگے بڑھنے لگا تو اسلم نے کہا کہ اختر بھائی ان سے آپ بات کرلیں، آپ تو انسانی حقوق کے رکن بھی ہیں۔ میں مجبوراً رُک گیا۔ جوڑے کو لے کر ہم کلب کے ٹیرس پر پہنچے۔ نوجوان نے اپنی کہانی سُنائی جو کہ کچھ یوں تھی:
نوجوان لڑکے کا نام کرشن اور والد کا نام وسند ہے جو کنری کا رہائشی اور ذات کا بھیل ہے۔ اس کے گاؤں میں رانی کولہی بنت روپو کولہی اپنے ماموں کے پاس قیام پذیر تھی۔ کولہیوں کے گاؤں کا نام گوٹھ شگن کولہی ہے جو ضلع عمر کوٹ کی تحصیل کنری میں واقع ہے۔