صدیوں سے سندھ میں ہندوؤں میں کئی ایسی ذاتیں ہیں جو انہی کے مذہب کے نزدیک اچھوت تصور کی جاتی ہیں مگر ان اچھوتوں میں شامل کسی مزدور ڈاڑھوں مل یا ویرجی کولہی کو علم ہی نہیں تھا کہ ’’دلت‘‘ کیا شے ہے۔

سینسز کمیشن کی تشکیل کے بعد نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ خود کو ہندو کے بجائے دلت لکھوائیں۔

اس طرح یہ ایک مہم بن گئی اور سندھ میں دلت مسئلے کو ہوا ملنا شروع ہوئی۔ لیکن یہ کیا، جو لوگ نچلی ذات کے ہندوؤں کو دلت مہم کا حصہ بنانے پر بضد ہیں، انہیں انہی ذاتوں کے لوگوں کی جانب سے زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اچھوت سمجھے جانے والے لوگ اس تحریک کو ایک ذلت آمیز پراجیکٹ اور ہندوؤں کو مزید اقلیت میں تبدیل کرنے کے ایک اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں۔

سندھ میں اس مہم کی بنیاد درحقیقت ہندوستان میں اچھوت ذات کے افراد پر مظالم کی بنیاد پر رکھی جا رہی ہے مگر چونکہ سندھ میں مذہبی طور پر ویسی بدترین صورتحال نہیں، لہٰذا دلت تحریک کی چھتری کی چھاؤں تلے اتنے لوگ بھی اکھٹے نہیں ہو سکے ہیں۔

پڑھیے: سندھ کی دلت تحریک پر اعتراضات کیوں؟

ذات پات میں بٹے لوگوں کا تاریخی پس منظر انتہائی تلخ ہے اور آج بھی ہندوستان میں اس چھوت چھات کے بدنما اور بدترین کلچر کی جھلکیاں ہمیں مختلف ذرائع سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔

صدیوں پہلے منو مہاراج نے جو قوانین تشکیل دیے تھے، انہیں پڑھ یوں لگتا ہے کہ ہندو مت میں نچلی ذاتوں کے لوگوں نے اس زمین پر جنم لے کر جیسے عظیم گناہ کر دیا ہو۔

منوسمرتی کے مطابق کوئی بھی اچھوت، اونچی ذات والے کے برابر ہونے کی کوشش کرے یا ان کا پیشہ اختیار کرے تو اسے کوڑے مار کر کھال اتاری جائے۔

اگر کوئی اچھوت کسی اونچی ذات والے کو گالی دے یا تھپڑ مارے تو اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔

انہیں سنسکرت زبان بولنے، پڑھنے اور سیکھنے کا کوئی حق نہیں، اگر کوئی بھی ان میں سے سنسکرت کا سبق سن لے تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا جائے۔

انہیں جائیداد رکھنے، کسی برہمن کا مذاق اڑانے یا گستاخی کرنے کا کوئی حق نہیں۔

یہ وہ تمام عوامل تھے جو رفتہ رفتہ ہندوستانی معاشرے میں سرایت کر گئے جسے آج تک وہاں کے مقامی لوگ بھگت رہے ہیں۔ ان مظالم، امتیازی سلوک اور استحصال کا عکاس ادب بھی لکھا گیا اور اس ادب کو "اچھوت لوگوں کا ادب" اور کہیں کہیں "دلت ادب" پکارا جاتا ہے۔

جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو وہاں نچلی ذات کے ہندوؤں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اگر کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو کسی بڑی ذات کی جانب سے معاشی، سماجی، مذہبی، جسمانی اور ذہنی استحصال کا شکار بنایا گیا، تو اس وجہ سے وہاں ایسی جامع تحریکوں کا جنم بھی ہوا ہے، مگر سندھ میں نہ تو وہ کروڑوں میں ہیں اور نہ ہی انہیں کسی ایک ہندو طبقے کے منظم انداز میں استحصال کا سامنا ہے۔

یہاں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہندوستان میں جب دلتوں کو یہ محسوس ہوا کہ انہیں ہندو سماج میں کسی صورت مقام حاصل نہیں ہو پا رہا تو انہوں نے بدھ مت اختیار کرنا شروع کردیا، مگر سندھ میں ایسا نہیں ہے۔

کسی زمانے میں کھیتوں اور معمولی مزدوریوں تک محدود یہ لوگ اب بیوروکریسی، میڈیکل، کاروبار، این جی اوز اور تعلیمی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

ان عہدوں پر پہنچنے سے انہیں نہ تو کسی اونچی ذات نے روکا اور نہ ہی کسی نچلی ذات کے شخص کی جانب سے سہولیات فراہم کی گئیں، بلکہ یہ سندھ کے سیاسی و سماجی ماحول کے اثرات تھے جو یہ لوگ آج مین اسٹریم میں شامل ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب تقسیمِ ہند سے قبل بھیم راؤ امبیدکر نے ہندوستان میں مقیم سماجی اور مذہبی طور نچلے ذات کے طبقات کو مساوی رتبہ دلوانے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔

مزید پڑھیے: کچرا صاف کرنے کے لیے صرف ہندو ہی کیوں؟

دراصل ان کی اپنی ذاتی زندگی نہایت تلخ تجربات سے گزری تھی اور دلت تحریک کو شروع کرنے کی وجہ بھی شاید وہ تلخ تجربات ہی تھے۔

انہیں اسکول میں پڑھائی کے وقت دوسرے طالب علموں سے الگ بٹھایا جاتا تھا، پانی الگ برتن میں دیا جاتا تھا، وہ کسی عام ہوٹل پر کھانا کھانے سے بھی قاصر تھے۔

کوئی دھوبی ان کے کپڑے نہیں دھوتا تھا۔ ان کی ماں دیگر عورتوں کی طرح خریداری کرتے وقت اشیا کو چھو نہیں سکتی تھیں اور ان کے برہمن استاد نے انہیں سنسکرت سکھانے سے بھی منع کردیا جس وجہ سے انہوں نے فارسی سیکھی۔

1926 میں شری منگو رام نے "اد دھرم منڈل" کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی جس کا پہلا کنوینشن ہندوستانی پنجاب میں منعقد ہوا تھا جبکہ 1928 میں "آل انڈیا ڈپریسڈ کلاسز لیگ" بابو جگ جیون رام نے بنائی تھی جس کا مقصد تمام دلت طبقات کے لوگوں کو متحد کرنا تھا۔

اس طرح یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا گیا۔ دلت ہریجن سماج، دلت سیوا آشرم، ڈپریسڈ کلاسز ایسوسی ایشن اور ایسی کئی دیگر تنظیمیں اس وقت ہندوستان میں موجود تھیں۔

اس کے بعد "آل انڈیا شیڈیول کاسٹس فیڈریشن" وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جو دلتوں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔ اس کی بنیاد بھیم راؤ امبیدکر نے رکھی جو کہ 1942 میں ناگپور میں ہونے والے کنوینشن میں بنی تھی۔

1946 میں عام انتخابات صوبائی سطح پر ہوئے جس میں امبیدکر ممبئی سے منتخب ہوئے تھے۔ ان کا ارادہ اقتداری ایوانوں سے دلتوں کو حقوق دلوانا تھا مگر گاندھی الیکٹورل اصلاحات کے ذریعے انہیں حقوق دینے کے خلاف تھے۔

گاندھی ذات پات کے نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کانگریس کبھی بھی وہاں آباد دیگر طبقات کو قبول نہیں کرے گی یہی وجہ تھی کہ جب ان کی ملاقات امبیدکر سے ہوئی تو انہوں نے دلت طبقے کو سماج کا حصہ سمجھنے کے بجائے انہیں ہریجن (خدا کی اولاد) قرار دے دیا۔

یہ عجیب منطق تھی اگر ہر انسان خدا کی ہی تخلیق ہے تو پھر دلت کو ہی ہریجن کیوں کہا گیا؟ گاندھی انہیں مخصوص نشستیں دینے کے خلاف تھے لہٰذا امبیدکر نے انہیں کہا کہ اچھا ہوا کہ آپ کے ارادے ہم پر ظاہر ہو گئے۔

خود امبیدکر جنہوں نے دلتوں کو حقوق دلوانے کی جدوجہد کی تھی انہوں نے بدھ مت اختیار کر لیا تھا۔

آج سندھ میں بھی امبیدکر فارمولے کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر یہ فارمولہ یہاں کارگر نہیں کیونکہ سندھ میں رہنے والے ان تمام ذاتوں کے لوگ اُس طرح سماجی عذاب میں مبتلا نہیں ہیں، جس طرح ہندوستان میں ہیں۔

آج تک سندھ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ کسی ہندو کی کھال اتاری گئی ہو، جس طرح ہندوستان میں نچلی ذات والوں کی کھال اتارنے اور انہیں ہتک آمیز سزائیں دینے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

جانیے: گائے کاٹنے کا الزام، گاؤں والوں کا 'دلتوں' پر تشدد

سونو کھنگارانی سول سوسائٹی کارکن اور سندھ میں اس تحریک کے روح رواں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، "یہ ایک سیاسی تحریک نہیں بلکہ ایک طبقے کے حقوق کے حصول کی تحریک ہے۔''

ان کا ماننا ہے کہ وہ دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر اقتدار کے ایوانوں سے انہیں حقوق دلوانا چاہتے ہیں۔ مزید یہ کہ دلت ایک عالمی اصطلاح ہے، اسے صرف ہندوؤں تک محدود نہ رکھا جائے۔

وہ سندھ میں بسنے والے تمام مظلوم طبقات کو دلت تصور کرتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو۔ ان کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کوئی پراجیکٹ نہیں ہے، اور نہ ہی اس مسئلے کو اٹھانے کے لیے کوئی فنڈنگ کی جا رہی ہے۔

جبکہ دوسری جانب اسی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے صحافی اور لکھاری آکاش سنتورائی کہتے ہیں کہ ''اس سے سندھ میں بسنے والے ہندو مزید اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ سندھ میں نچلی ذاتوں کی سیاسی اور معاشی آزادی اور ترقی کے لیے انہیں مرکزی دھارے کا حصہ بننا پڑے گا۔ جو ہم سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر، تعلیمی میدان میں خود کو منوا کر حاصل کر سکتے ہیں اور اب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

"سندھ میں کسی بھی ہندو کو کسی نے نہیں روکا کہ وہ سیاسی جماعت کا حصہ نہ بنے، اور بہت سے لوگ ہیں جو آج تک سیاسی طور پر پیپلز پارٹی، عوامی تحریک اور دیگر جماعتوں میں سرگرم رہے ہیں۔"

اس تحریک کے لوگوں کی جانب سے یہ بات تو کہی جاتی ہے کہ یہ ایک غیر سیاسی تحریک اور حقوق کی لڑائی ہے مگر دنیا میں کون سی ایسی تحریک ہے جو حقوق کے لیے ہو اور وہ غیر سیاسی رہی ہو؟

اگر ہم یہ بات تسلیم کر بھی لیں کہ سندھ کی نچلی ذاتوں کا مسئلہ بالکل ہندوستان کی طرز پر ہی ہے، تو اسے حل کرنے کے لیے مرکزی دھارے کی سیاست میں شامل ہونا نہایت ضروری ہے۔

پونجو مل بھیل جو کہ اب پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں، وہ اس سے قبل ایم کیو ایم جماعت کے رکن سندھ اسمبلی رہ چکے ہیں۔

پونجو بھیل کو کسی سیاسی جماعت نے ان کی ذات کی بنا پر اپنی سیاسی جماعت میں شامل کرنے سے انکار تو نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خود سے سیاست میں اپنی جگہ حاصل کی۔

پڑھیے: 100 دلت خاندانوں کا قبول اسلام

آج بھی سندھ میں آباد باگڑی کاروبار میں مصروف ہیں، اسی طرح، بھیل، اوڈ اور میگھواڑ خود کو تعلیمی میدان میں لا کر اتنا بہتر کر چکے ہیں کہ اب وہ ہر شعبے میں نظر آنے لگے ہیں۔

سندھ میں بسنے والے ہندو آج بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، جس میں ہمیں مذہبی رواداری کی مثالیں ملتی ہیں۔ مگر نچلی ذات کے ہندوؤں سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے جس طرح سندھ میں تجربات کیے جا رہے ہیں، اس طرح یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوتا جائے گا۔

کیوں کہ جنہیں مذہبی اعتبار سے دلت سمجھا جا رہا ہے، ان میں بھی کئی ذاتیں ایسی ہیں جو کہ خود کو دیگر ذاتوں سے بر تر سمجھتی ہیں۔ اس طرح کیا انہیں ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا ممکن ہو سکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ان کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو کہ مجموعی طور پر اس برادری سے تو کیا اس مذہب سے ہی تعلق نہیں رکھتے؟

آج ہمیں صحیح معنوں میں ایک شعور پھیلاؤ تحریک کی ضرورت ہے جس میں مساوی انسانی اقدار کا پاس رکھنا سکھایا جائے۔ ہمیں مذہبی اصطلاحات میں پڑنے کے بجائے ایک جامع باشعور بلا امتیاز معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد تعلیم اور آگاہی پر ہو۔ چھوت اچھوت کے اس غیر انسانی مسئلے کا حل صرف اسی طرح ممکن ہے۔


تبصرے (2) بند ہیں

ashokramani Aug 27, 2016 07:50pm
y phir b amar sindhu k likhe hue blog s kch behter h.
غلام شبیر لغاری Aug 28, 2016 02:10pm
کیا سندھ میں دلت تحریک کی ضرورت ہے؟ اختر حفیظ نے اپنے بلاگ میں تاریخی حوالات دے کر باتیں کہیں ہیں۔ جس سے ہندوستاں میں دلتوں پر ہونے ہالے مظالم کا پتا چلتا ھۓ۔ پر سندہ میں دلتوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو رہا، جس کے لۓ تحریک چلانے کی ضرورت پڑے۔ ڈان کے بھتریں لکھاری اختر حفیظ نے نھایت اہم باتیں اپنے بلاگ میں کہی ہیں۔