Dawn News Television

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2016 09:31am

نیب کی رضاکارانہ اسکیم آئین سے متصادم : سپریم کورٹ

کراچی: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بدعنوان سرکاری ملازمین کی جانب سے رضاکارانہ طور پر غیر قانونی طریقے سے کمائی گئی رقم واپس کرنے کی پیشکش قبول کرنے کا قومی احتساب بیورو(نیب) کے چیئرمین کا اختیار بادی النظر میں آئین سے متصادم ہے۔

نیب نے احتساب عدالت کی جانب سے دھوکہ دہی کے الزام میں ایک شہری کو ریمانڈر پر دینے سے انکار کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ ’آرٹیکل 25 اے کو آئین کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے جو چیئرمین نیب کو غیر قانونی طریقے سے کمائی گئی دولت رضاکارانہ طور پر واپس کرنے کی پیشکش کو قبول کرنے کا اختیار دیتا ہے‘۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’یہ شق بادی النظر میں آئین کی اس شق سے متصادم ہے جس کے تحت ایسے اختیارات صرف کسی عدالتی فورم کی جانب سے ہی استعمال کیے جاسکتے ہیں اور چونکہ مذکورہ سیکشن میں نااہلی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی لہٰذا رقم کی رضاکارانہ واپسی کے بعد وہ شخص آزاد ہوجاتا ہے، اس کے کیریئر پر لگا داغ بھی مٹ جاتا ہے، وہ انتخاب لڑ سکتا ہے اور سرکاری عہدہ بھی رکھ سکتا ہے ‘۔

یہ بھی پڑھیں:نیب آرڈیننس لانا حکومت کیلئے خطرناک، خورشید شاہ

علاوہ ازیں عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب آرڈیننس میں کوئی پیمانہ یا تجویز نہیں دی گئی کہ رضاکارانہ طور پر واپس کی جانے والی رقم کا حجم کم سے کم کتنا ہونا چاہیے۔

معاملے کی سماعت کرنے والے بنچ نے سپریم کورٹ آفس کو ہدایت کی کہ وہ کیس کو چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو پیش کرے اور ان سے درخواست کرے کہ اس معاملے کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سو موٹو پٹیشن کے طور پر لیے جانے کے حوالے سے مناسب حکم جاری کریں۔

سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات کا بھی مزید جائزہ لینا ضروری ہے کہ آیا نیب ان مقدمات کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے اپنا دائرہ اختیار بڑھانے کا مجاز ہے جو اینٹی کرپشن حکام اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ نیب نے چھوٹے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے 10 کروڑ روپے سے کم مالیت کی خرد برد کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کی فہرست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نیب کی جانب سے جن کیسز کی تحقیقات کی گئیں وہ کوئی میگا اسکینڈل نہیں بلکہ معمولی کرپشن کے معاملات تھے۔

مزید پڑھیں:نیب میں غیر قانونی تقرریاں، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

عدالت نے موقف اختیار کیا کہ ’نیب آرڈیننس کے قیام کا یہ مقصد نہیں تھا بلکہ اس کی تشکیل ان افراد کو پکڑنے کیلئے کی گئی تھی جو بڑے پیمانے پر کرپشن اور بدعنوانی کررہے ہوں‘۔

عدالت نے کہا کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ملزم جس نے لوٹ مار کرکے بڑے پیمانے پر مال بنایا وہ اس کا کچھ حصہ وہ بھی قسطوں میں ادا کرکے تمام گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے اور دوبارہ عہدہ سنبھالنے کا بھی اہل ہوجاتا ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’رضاکارانہ اسکیم کے حوالے سے چیئرمین نیب کی جانب سے اختیارات کے تسلسل کے ساتھ استعمال کی وجہ سے درحقیقت ایک جانب کرپشن میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب نیب آرڈیننس کے مقاصد کو بھی نقصان پہنچا‘۔

عدالت نے کہا کہ سیکشن 25 اے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ بدعنوان سرکاری ملازمین سے لوٹی ہوئی رقم کا کچھ حصہ لے کر نیب کی جانب سے اسے کلین چٹ دے دی جائے۔

سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ ’جو بات ہمارے لیے حیران کن ہے وہ یہ کہ کوئی بھی ادارہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کررہا جنہوں نے رضاکارانہ اسکیم سے فائدہ اٹھایا‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سرکاری افسر کی جانب سے رضاکارانہ اسکیم کا آپشن استعمال کرنا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے اور جیسے ہی وہ شخص اس بات کا اعتراف کرے کہ اس نے کرپشن سے پیشہ کمایا ہے اس کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی شروع ہوجانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:نیب کو تنبیہ تاجروں کی شکایت پر کی گئی

سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’کرپشن کا اعتراف کرنے کے بعد وہ شخص وفاقی یا صوبائی حکومت اور سرکاری اداروں میں میں کوئی عہدہ نہیں رکھ سکتا‘۔

عدالت نے نیب، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ نیب کی جانب سے تحقیقات کیے جانے والے مقدمات کا ریکارڈ پیش کیا جائے اور ان ریفرنسز کی بھی تفصیلات فراہم کی جائیں جو نیب کی عدالتوں میں زیر التواء ہیں اور ان میں کرپشن کی مالیت 10 کروڑ روپے سے کم ہے۔

عدالت نے ان افراد کا ریکارڈ بھی پیش کرنے کی ہدایت کی جو رضاکارانہ اسکیم میں شامل ہوئے اور ان افراد کے خلاف اب تک کی جانے والی کارروائیوں کی تفصیلات بھی مانگ لیں جن کی رضاکارانہ رقم واپس کرنے کی پیشکش نیب کی جانب سے منظور کی جاچکی ہے۔

**یہ خبر 8 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی **


Read Comments