پاکستان

منگلا ڈیم : فرانسیسی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کا فیصلہ چیلنج

آسٹریا کی کمپنی نے واپڈا کے فیصلے پر اعتراض کردیا، تین رکنی کمیٹی قائم کردی گئی جو معاملے کی سماعت 19 ستمبر کو کرے گی۔

اسلام آباد: آسٹریا کی کمپنی نے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی( واپڈا) کی جانب سے منگلا ڈیم کی صفائی اور مرمت کے حوالے سے پروجیکٹ کا ٹھیکہ فرانسیسی کمپنی کو دینے کا فیصلہ چیلنج کردیا۔

واپڈا کی جانب سے معاملے کے حل کے لیے تین رکنی کمیٹی قائم کردی گئی جس کی پہلی سماعت 9 ستمبر کو ہونی تھی تاہم مدعی کی درخواست پر سماعت کی تاریخ 19 ستمبر مقرر کردی گئی۔

واپڈا کی جانب سے گزشتہ ہفتے منگلا ڈیم ریفربشمنٹ پروجیکٹ کے لیے چھ ٹربائن جنریٹرز کے حصول کا 10 ارب روپے مالیت کا ٹھیکہ فرانسیسی کمپنی ایلزٹام ہائیڈرو Alstom Hydro کو دے دیا گیا تھا۔

ڈان کی جانب سے رابطہ کرنے پر واپڈا کے ترجمان نے تحریری طور پر جواب دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پروجیکٹ کے حصول کے لیے پیشکش جمع کرانے والی ایک کمپنی نے اپیل دائر کی ہے جسے واپڈار کی گریونس کمیٹی (ڈبلیو جی سی) کو بھیج دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے کو پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے 2004 میں وضع کردہ قوانین کے مطابق حل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ مذکورہ پروجیکٹ کے لیے گزشتہ برس ستمبر میں چار کمپنیوں نے پیشکش جمع کرائی تھیں، ان میں فرانس کی ایلزٹام ہائیڈرو اور آسٹریا کی اینڈرز ہائیڈرو کے علاوہ جرمنی کی وائتھ ہائیڈرو اور روس کی او جے ایس سی پاور مشینز شامل تھیں۔

روسی کمپنی نے اپنی پیشکش کے ساتھ سیکیورٹی ڈپازٹ جمع نہیں کرایا تھا جس کی وجہ سے وہ اس دوڑ سے باہر ہوگئی تھی۔

آسٹرین کمپنی کے سربراہ کی جانب سے چیئرمین واپڈا کے نام لکھے جانے والے خط کے میں منگلا ریفربشمنٹ پروجیکٹ پیکجز I&VII، ٹربائن جنریٹرز یونٹس 6-1 کا ٹھیکہ فرانسیسی کمپنی کو دینے پر اعتراض کرتے ہوئے درخواست کی کہ یہ معاملہ پی پی آر 2004 کے تحت قائم ہونے والی ڈبلیو جی سی کے سامنے پیش کیا جائے۔

واپڈا پر الزام لگایا گیا کہ اس نے سب سے کم بولی لگانے والی فرانسیسی کمپنی ایلزٹام ہائیڈرو کو زیادہ توجہ دی جبکہ اس کمپنی کی مبینہ طور پر اس کمپنی سے وابستگی ہے جس پر حال ہی میں امریکا میں رشوت ستانی اور ریکارڈز میں ہیر پھیر کے الزام میں فردم جرم عائد کی گئی۔

گزشتہ برس نومبر میں امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں وفاقی جج نے رشوت ستانی کے مقدمے میں فرانسیسی کمپنی ایلزٹام ایس اے کو 77 کروڑ 23 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا جو کہ امریکا میں کسی غیر ملکی کمپنی پر رشوت کے مقدمے میں عائد کیا جانے والا سب سے زیادہ جرمانہ تھا۔

قوانین کے مطابق کوئی بھی کمپنی جسے پی پی آر اے یا بین الاقوامی ایجنسیوں جیسے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک یا یورپین بینک برائے ری کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ وغیرہ کی جانب سے کام سے روکا گیا ہو، بلیک لسٹ کیا گیا ہو یا پابندی عائد کی گئی ہو وہ کوئی کنٹریکٹ حاصل کرنے کی اہل نہیں۔

کنٹریکٹ دینے کے عمل میں ہونے والی ایک بے قاعدگی یہ بھی سامنے آئی کہ پیشکش جمع کرانے والی تمام کمپنیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ ٹربائن جنریٹرز کی بحالی نو کے لیے (4-1 اور 6-5) ٹربائنز کی دو علیحدہ جانچ کریں تاہم فرانسیسی کمپنی نے محض ایک ٹیسٹ کیا اور اس کی پیشکش قبول کرلی گئی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی ایلزٹام ہائیڈرو کو ٹھیکہ دینے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تاہم واپڈا کے ترجمان نے فرانسیسی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کے فیصلے کا دفاع کیا۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ جرمانہ عائد ہونے یا زر تلافی کی ادائیگی سے کوئی ادارہ بلیک لسٹ نہیں ہوجاتا، اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ کسی قومی یا بین الاقوامی ایجنسی نے امریکی عدالت کی جانب سے جرمانہ عائد کیے جانے کی بنیاد پر میسرز ایلزٹام کو کام سے روکا ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’تمام متعلقہ پہلوؤں کا جائزہ لینے اور کمپنی کی موجودہ حالت واضح ہونے کے بعد ہی واپڈا نے سب سے کم پیشکش کرنے والی کمپنی یعنی فرانس کی ایلزٹام ہائیڈرو کی بولی قبول کی‘۔

انہوں نے کہا کہ ایلزٹام کی جانب سے جمع کرائی جانے والی پیشکش میں ایک ٹربائین کا ماڈل ٹیسٹ فراہم کیا گیا تھا جبکہ دوسرا ماڈل ٹیسٹ اختیاری اشیاء کے شیڈول میں دیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ واپڈا نے دوسرے ماڈل ٹیسٹ کو کام کے دائرہ کام میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ معمول کے طریقہ کار کے مطابق تھا لہٰذا پیشکشوں کی درخواستوں کو کھولے جانے کے بعد ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

یہ خبر 10 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی