سرحد پار بھارتی جارحیت کے خلاف قرار داد منظور
کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کی اسمبلی کے اراکین نے حالیہ بھارتی جارحیت کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور بلوچستان کے فرزند اپنی دھرتی ماں کا دفاع کرنا بخوبی جانتے ہیں۔
چیئرمین لیاقت آغا کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اراکین اسمبلی کی جانب سے مشترکہ مذمتی قرار داد جمعیت علماء السلام کے رکن اسمبلی محترمہ حسن بانو نے پیش کی تھی۔
جس میں کہا گیا کہ ہمسائیہ ملک بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کی مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں جو لمہ فکریہ ہے، ایوان ان دھمکیوں کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلک دشمن ملک کو بتا دینا چاہتا ہے کہ پاک فوج، سیاستدان اور عوام ایک پیج پر ہیں۔
قرار داد میں کہا گیا کہ ہم دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں، کسی بھی قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے تمام اراکین نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایٹمی ملک ہے کمزرو نہ سمجھا جائے، جنگ ہوئی تو نہ صرف اس جانب بلکہ دوسری جانب بھی بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوگا۔
مزید پڑھیں: سرجیکل اسٹرائیکس کابھارتی دعویٰ 'جھوٹا'، فائرنگ سے 2 پاکستانی فوجی جاں بحق
اراکین کا کہنا تھا کہ ہندوستان اڑی حملوں سمیت ہر واقعے کی ذمہ داری بلا تحقیق پاکستان پر ڈال دیتا ہے جو قابل مذمت اقدام ہے، بلوچستان کے عوام پاکستان کی سالمیت کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
اراکین اسمبلی کی حمایت کے بعد بلوچستان اسمبلی نے بھارتی جارحیت کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔
اجلاس کے دوران رکن اسمبلی میر خالد لانگو کی جانب سے سانحہ آٹھ اگست سے متعلق قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گہا کہ سانحہ آٹھ اگست کے تمام شہداء کے ورثاء کو ایک ایک کروڑ روپے معاوضہ دیا جائے تاکہ شہید ہونے والے شہریوں کے ورثاء میں پائی جانیوالی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے،حکومتی یقین دہانی کے بعد اسپیکر نے قرارداد نمٹانے کی رولنگ دے دی۔
واضح رہے کہ ہندوستان کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بھمبھر، کیل، تتاپانی اور لیپا سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ کی گئی تھی، جس کا پاک فوج نے منہ توڑ جواب دیا۔
ادھر ہندوستان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ پاکستانی فورسز نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر نوگام سیکٹر پر بلااشتعال فائرنگ کی۔
ہندوستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے دعویٰ کیا کہ 'ہندوستانی فورسز نے گذشتہ رات لائن آف کنٹرول پر سرجیکل اسٹرائیکس کیں'۔
یہ بھی پڑھیں: جاں بحق پاکستانی فوجیوں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں روانہ
اس سے قبل ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے لائن آف کنٹرول پر سیکیورٹی صورتحال سے متعلق کابینہ اجلاس کی صدارت کی تھی، جس میں اہم وزراء اور فوجی عہدیداران موجود تھے۔
تاہم آئی ایس پی آر نے لائن آف کنٹرول پر سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کا فائرنگ کو سرجیکل اسٹرائیکس کا رنگ دینا ایک دھوکہ ہے۔
ترجمان پاک فوج کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا ہندوستانی دعویٰ غلط ہے اور اگر پاکستانی سرزمین پر سرجیکل اسٹرائیکس ہوئیں تو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
اس سے قبل گذشتہ ہفتے بھی ہندوستانی فوج نے پاکستانی فورسز پر کنٹرول لائن کے لاچی پورہ اور ماہیان بونیار کے علاقوں میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا جبکہ انڈین میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ان علاقوں میں فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
تاہم پاکستان نے ان تمام دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نہیں بلکہ ہندوستان سیز فائر کی خلاف ورزیاں کرتا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ایل او سی سے ایک بھارتی فوجی گرفتار، متعدد ہلاک
لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا حالیہ تبادلہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب اوڑی حملے کے بعد سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
رواں ماہ 18 ستمبر کو جموں و کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے سیکٹر اوڑی میں ہندوستان کے فوجی مرکز پر حملے کے نتیجے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد ہندوستان نے بغیر تحقیقات اور ثبوت کے اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔
اس واقعے کے بعد سے پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ صورت حال اختیار کرچکے ہیں اور حال ہی میں نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سرحد پار دہشت گردی سمیت دیگر الزامات لگائے۔
ہندوستان نے اوڑی حملے کو جواز بناکر نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والے سارک اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا، بعدازاں بنگلہ دیش نے بھی سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کردیا۔
جس کے بعد نومبر میں ہونے والی 19ویں جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) سربراہان کانفرنس ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں رواں برس 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے یہاں صورتحال کشیدہ ہے اور مظاہروں اور فورسز سے جھڑپوں کے نتیجے میں 100 سے زائد کشمیری جاں بحق اور ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں کے استعمال کے باعث سیکڑوں کشمیری بینائی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔