انڈس ڈیلٹا میں آمدنی کا شارٹ کٹ
مچھلی کی نسل کشی: شارٹ کٹ آمدنی کا ناقابلِ تلافی نقصان
ایک منظرنامہ وہ ہے جو ہمیں بڑے سیمیناروں، اداروں کی پریزنٹیشنوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں نظر آتا ہے، جس میں ماحولیات کے متعلق باتیں ہوتی ہیں اور بڑے وزنی، سنجیدہ اور رنجیدہ قسم کے انگریزی الفاظ ہوتے ہیں، جو پورے ملک کے فقط دو فیصد لوگوں کو سمجھ آتے ہیں اور باقی لوگ اُن الفاظ اور اُس مشکل گفتگو کے سحر میں جکڑے رہتے ہیں۔ جب ایسی گفتگو یا سیمینار اختتام کو پہنچتے ہیں تو ایک غنودگی کے عالم میں لوگ اپنے گھر کو چل دیتے ہیں۔
اگر اس رنگین اور ٹھنڈے منظرنامے کو ایک طرف رکھ کر بات کریں تو صاف بات یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی آنکھیں اور کان بند کیے ماحول اور وسائل کی بربادی میں جُٹا ہوا ہے۔
میں اس حقیقت کو یوں اور بھی آسان بنا دیتا ہوں کہ شیخ چلی جس ڈالی پر بیٹھا ہے اُس کو ہی کاٹ رہا ہے۔ یہ بالکل سادہ اور آسان زبان ہے جو ہم سب کو سمجھ میں آنی چاہیے۔
کچھ ہفتوں پہلے ایک گرم ڈھلتی دوپہر کا قصہ ہے۔ میں انڈس ڈیلٹا کی ساحلی پٹی کے اُن لوگوں سے مل کر واپس آ رہا تھا جہاں خوراک کی کمی نے بہت ساری بیماریوں نے اُن کے گھروں کے راستے دیکھ لیے ہیں۔ یا یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ ان لوگوں نے خود ان بیماریوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی ہوئی ہے۔
مگر اُس گرم ڈھلتی دوپہر میں کچے راستے پر میں ایک چھوٹے کیکر کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ کیوں؟ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ وہاں سے چوں کہ راستہ پگڈنڈی نما تھا جس پر گاڑی کا چلنا ممکن نہیں تھا، لہٰذا ہم نے موٹر سائیکل پر سفر شروع کیا۔ قسمت کا تقاضا کہہ لیجیے کہ دو پہیوں والی سواری کا ایک پہیہ پنکچر ہوگیا سو ہماری سواری اب ایک پہیے پر کھڑی تھی۔ میرے ساتھ موجود موٹر سائیکل رائیڈر دو کلومیٹر دور پنکچر بنوانے چلا گیا تھا۔