جونٹی رہوڈز ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے۔ فوٹو وائٹ اسٹار
مقررہ 50 اوورز میں جنوبی افریقہ نے 211 رنز اسکور کیے تھے لیکن بارش کی مداخلت کے سبب اننگ کو 36 اوور تک محدود کر کے پاکستان کو 194 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا۔
اس میچ سے چند دن قبل میزبان آسٹریلیا کے خلاف ڈیبیو کرنے والے جونٹی رہوڈز نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نم دن تھا، ہمیں لازمی ایک وکٹ درکار تھی۔ برسبین میں دوپہر میں بہت طوفان آیا تھا لہذٰا گیند گیلی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان دنوں بارش کے قوانین کے سبب دوسری بیٹنگ بہت مشکل تھی۔ انضمام اور عمران کریز پر موجد تھے اور بہت تیزی سے رنز کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ گیند گیلی ہونے کی وجہ سے ہمارے کھلاڑی گیند بھی نہیں پکڑ پا رہے تھے۔
اس رن آؤٹ کا احوال بتاتے ہوئے مایہ ناز فیلڈر نے کہا کہ میں نے دیکھ لیا تھا انضمام نان اسٹرائیکر اینڈ کی جانب دوڑے جا رہے ہیں اور عمران اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کر رہے ہیں کہ 'میں نہیں آ رہا'۔
'جب مجھے گیند ملی تو میں نے سوچا کہ انضمام وکٹ سے بہت دور ہیں اور باؤنڈری بچانے کیلئے میں سرکل کے اندر موجود تھا'۔
'میں وکٹوں کی جانب دیکھ رہا تھا، میں انضمام اور عمران کو دیکھ سکتا تھا۔ 22 سال کی عمر میں ایک لڑکا ہونے کے باوجود انضمام تھوڑے سست تھے لہٰذا میں نے سوچا کہ میرے پاس بھاگ کر وکٹیں اڑانے کا بہت وقت ہے'۔
جنوبی افریقہ کو اس وقت وکٹ کی اشد ضرورت تھی لیکن گیند گیلی تھی اور براہ راست تھرو کی صورت میں یہ امکان موجود تھا کہ گیند وکٹ پر نہ لگے لہٰذا رہوڈز نے ڈائیو مار دی۔
245 میچوں میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے رہوڈز نے کہا کہ وہ رن آؤٹ ایک عمدہ منظر تھا لیکن یہ بہت نزدیکی معاملہ تھا۔ اسٹیو بکنر بہت آسانی سے ناٹ آؤٹ دے سکتے تھے کیونکہ اس وقت تھرڈ امپائر موجود نہ تھے۔ یہ آؤٹ تھا لیکن بہت مشکل فیصلہ تھا۔
ایتھلیٹکس کے اس عمدہ مظاہرے کے بعد جنوبی افریقہ نے میچ میں واپس مڑ کر نہ دیکھا اور فتح اپنے نام کی۔
رہوڈز نے کہا کہ فیلڈ کے دوران حاضر دماغی سے کام لینا کوئی قدرتی ذہانت نہیں بلکہ یہ بچہن سے بڑے ہونے تک مختلف کھیل کھیلنے کی وجہ سے ان میں آئی۔
انہوں نے بتایا کہ میری فیلڈنگ، ٹینس، ریٹرننگ سروس، بحیثیت سینٹر فارورڈ اور گول کیپر فٹبال کھیلنے کا نتیجہ تھی۔
انہوں نے تفصٰلات بتاتے ہوئے کہا کہ بیک ورڈ پوائنٹ فیلڈر کی حیثیت سے کھڑا ہو کر میں خود کو ایک گول کیپر سمجھتا ہوں تاکہ میں بلے باز کے قریب آ سکوں کیونکہ یہاں گیند تیز آتا ہے۔ لہذٰا مجھے گیند پھینکے جانے سے قبل تیار ہونا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں ایک ہاکی کا کھلاڑی بھی تھا جہاں گیند کے حصول کیلئے تیزی سے اس ی جانب لپتکا تھا اور چست ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ آسان تھا۔