جونٹی رہوڈز، انضمام اور یادگار رن آؤٹ

21 سال قبل کولمبیا کے گول کیپر رین ہگویٹا نے اپنی عمدہ 'اسکاپین کک' کے ذریعے عالمی دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا تھا۔

1994 کے ورلڈ کپ تک رسائی میں ناکامی کے بعد انگلینڈ ایک عہد کا آغاز کرنے جا رہا تھا اور چھ ستمبر 1995 کو ویمبلے میں ہونے والے دوستانہ میچ میں اس کا مقابلہ کولمبیا سے ہوا۔

تاہم ناقابل یقین معاملہ اس وقت ہوا جب جیمی ریڈ نیپ نے کولمبیا کے گول کی جانب ایک کک لگائی لیکن ہگویٹا نے اسے روک لیا۔

انہوں نے عمومی انداز میں گیند کو گول کی جانب جانے سے نہیں روکا تھا بلکہ آگے کی جانب ڈائیو کر کے پیچھے سے اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھائیں اور گیند کو چھ یارڈ دور پھینک کر اسٹیڈیم میں موجود 20ہزار شائقین پر سکتہ طاری کردیا۔

تین سال قبل کچھ ایسا ہی واقعہ کرکٹ کے میدان پر 1992 ورلڈ کپ میں رونما ہوا تھا جب جنوبی افریقہ کے جونٹی رہوڈز نے خوبصورت ڈائیو کے ذریعے انضمام الحق وکٹیں اکھاڑ کر رن آؤٹ کرنے کے بعد پویلین واپس بھیجا۔

ڈان سے خصوصی انٹرویو میں جونٹی رہوڈز نے بہترین فیلڈر کے منصب پر فائز ہونے کا سہرا عظیم پاکستانی بلے باز کے سر باندھ دیا۔

کوچنگ کے ٹی وی ریالٹی شو ' کرکٹ سپر اسٹار' کیلئے کراچی کا دورہ کرنے والے جونٹی رہوڈز نے کہا کہ آٹھ مارچ 1992 کو انضمام الحق کا رن آؤٹ ہی انہیں دنیا بھر مشہور کر گیا۔

جونٹی رہوڈز ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے۔ فوٹو وائٹ اسٹار
جونٹی رہوڈز ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے۔ فوٹو وائٹ اسٹار

مقررہ 50 اوورز میں جنوبی افریقہ نے 211 رنز اسکور کیے تھے لیکن بارش کی مداخلت کے سبب اننگ کو 36 اوور تک محدود کر کے پاکستان کو 194 رنز کا نظرثانی شدہ ہدف دیا گیا۔

اس میچ سے چند دن قبل میزبان آسٹریلیا کے خلاف ڈیبیو کرنے والے جونٹی رہوڈز نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نم دن تھا، ہمیں لازمی ایک وکٹ درکار تھی۔ برسبین میں دوپہر میں بہت طوفان آیا تھا لہذٰا گیند گیلی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ان دنوں بارش کے قوانین کے سبب دوسری بیٹنگ بہت مشکل تھی۔ انضمام اور عمران کریز پر موجد تھے اور بہت تیزی سے رنز کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ گیند گیلی ہونے کی وجہ سے ہمارے کھلاڑی گیند بھی نہیں پکڑ پا رہے تھے۔

اس رن آؤٹ کا احوال بتاتے ہوئے مایہ ناز فیلڈر نے کہا کہ میں نے دیکھ لیا تھا انضمام نان اسٹرائیکر اینڈ کی جانب دوڑے جا رہے ہیں اور عمران اپنا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کر رہے ہیں کہ 'میں نہیں آ رہا'۔

'جب مجھے گیند ملی تو میں نے سوچا کہ انضمام وکٹ سے بہت دور ہیں اور باؤنڈری بچانے کیلئے میں سرکل کے اندر موجود تھا'۔

'میں وکٹوں کی جانب دیکھ رہا تھا، میں انضمام اور عمران کو دیکھ سکتا تھا۔ 22 سال کی عمر میں ایک لڑکا ہونے کے باوجود انضمام تھوڑے سست تھے لہٰذا میں نے سوچا کہ میرے پاس بھاگ کر وکٹیں اڑانے کا بہت وقت ہے'۔

جنوبی افریقہ کو اس وقت وکٹ کی اشد ضرورت تھی لیکن گیند گیلی تھی اور براہ راست تھرو کی صورت میں یہ امکان موجود تھا کہ گیند وکٹ پر نہ لگے لہٰذا رہوڈز نے ڈائیو مار دی۔

245 میچوں میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے رہوڈز نے کہا کہ وہ رن آؤٹ ایک عمدہ منظر تھا لیکن یہ بہت نزدیکی معاملہ تھا۔ اسٹیو بکنر بہت آسانی سے ناٹ آؤٹ دے سکتے تھے کیونکہ اس وقت تھرڈ امپائر موجود نہ تھے۔ یہ آؤٹ تھا لیکن بہت مشکل فیصلہ تھا۔

ایتھلیٹکس کے اس عمدہ مظاہرے کے بعد جنوبی افریقہ نے میچ میں واپس مڑ کر نہ دیکھا اور فتح اپنے نام کی۔

رہوڈز نے کہا کہ فیلڈ کے دوران حاضر دماغی سے کام لینا کوئی قدرتی ذہانت نہیں بلکہ یہ بچہن سے بڑے ہونے تک مختلف کھیل کھیلنے کی وجہ سے ان میں آئی۔

انہوں نے بتایا کہ میری فیلڈنگ، ٹینس، ریٹرننگ سروس، بحیثیت سینٹر فارورڈ اور گول کیپر فٹبال کھیلنے کا نتیجہ تھی۔

انہوں نے تفصٰلات بتاتے ہوئے کہا کہ بیک ورڈ پوائنٹ فیلڈر کی حیثیت سے کھڑا ہو کر میں خود کو ایک گول کیپر سمجھتا ہوں تاکہ میں بلے باز کے قریب آ سکوں کیونکہ یہاں گیند تیز آتا ہے۔ لہذٰا مجھے گیند پھینکے جانے سے قبل تیار ہونا پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں ایک ہاکی کا کھلاڑی بھی تھا جہاں گیند کے حصول کیلئے تیزی سے اس ی جانب لپتکا تھا اور چست ہونے کی وجہ سے میرے لیے یہ آسان تھا۔

ڈان سے انٹرویو کے دوران جونٹی رہوڈز 1992 ورلڈ کپ کے اس یادگار رن آؤٹ کا ذکر کرتے ہوئے۔ فوٹو وائٹ اسٹار
ڈان سے انٹرویو کے دوران جونٹی رہوڈز 1992 ورلڈ کپ کے اس یادگار رن آؤٹ کا ذکر کرتے ہوئے۔ فوٹو وائٹ اسٹار

خوش قسمتی سے یہ تمام چیزیں اس دن اس یادگار رن آؤٹ یں ان کے کام آ گئیں اور گابا میں اس کے ساتھ ہیں پاکستانی بیٹنگ ڈھیر ہونا شروع ہو گئی۔

جب انضمام 48 رنز بنا کر پویلین لوٹے تو پاکستان نے دو وکٹ کے نقصان پر 135 رنز بنائے تھے لیکن ان کے پویلین لوٹنے کے ساتھ ہی پاکستان کی فتح امیدیں دم توڑ گئیں اور 21 رنز سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

یہ جنوبی افریقہ کا ایونٹ میں پانچواں میچ تھا جہاں اس سے قبل انہیں دو میچوں میں فتح اور دو میں شکست ہوئی تھی لہٰذا یہ ایونٹ میں اس وقت تک محض ایک میچ جیتنے والی عمران خان الیون کے ساتھ ساتھ پروٹیز کیلئے بھی اہم میچ تھا۔

پاکستان ایونٹ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا اور اس وقت کوئی بھی یہ یش گوئی کر سکتا تھا کہ ورلڈ کپ 1992 کی خوبصورت کرسٹل ٹرافی اٹھانے کا شرف عمران خان کو حاصل ہو گا اور اس دور کا نوجوان انضمام آنے والے عہد کا ایک بڑا سپر اسٹار بن کر سامنے آئے گا۔

اگلے دن اسپورٹس کے صٖحات پر میچ رپورٹ کے ساتھ اس خوبصورت رن آؤٹ کی تصویریں چسپاں تھیں۔

47 سالہ رہوڈز نے مسکراتے ہوئے کہا کہ انضمام اور اس تصویر نے میرے کیریئر کا آغاز کیا۔